Ghalib

  • Work-from-home

Zia_Hayderi

TM Star
Mar 30, 2007
2,468
1,028
1,213
اردوئے معلّیٰ




نجم الدولہ، دبیر الملک، مرزا نوشہ اسد اللہ خان بہادر نظام جنگ المتخلص بہ غالب

۱۹۰۸ء





بسم اللہ الرحمن الرحیم

---1
کوئی بتلاؤ کہ ہم بتلائیں کیا؟

“نماز مومن کی معراج ہے ” یہ جملہ کچھ اتنے تواتر اور تسلسل سے دہرایا جاتا ہے کہ کبھی کسی نے اس کے مطلب پر غور کرنے کی کوشش نہیں کی۔ غور کیا ہوتا تو شاید میری طرح کسی اور نے بھی وہی سوچا ہوتا جو میں نے سوچا۔ یہاں اپنے نمازی ہونے کا ڈھنڈورا پیٹنا مقصود نہیں ، صرف یہ واضح کرنا ہے کہ میں نے بھی بہت عرصہ نمازیں پڑھیں۔ مگر آج تک مجھے تو کوئی معراج نصیب نہ ہو سکی۔ اور تقریباً جتنے نمازیوں کو میں جانتا ہوں ان کے بارے میں وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ ان کا دامن بھی میری طرح خالی ہے۔ پھر یہ جملہ گھڑنے والے کو کیا سوجھی۔۔۔۔ ؟؟ اس نے کس برتے پر اتنی لمبی چھوڑی۔۔۔۔ ؟؟

مگر جب غیر جانبداری سے سوچا اور اپنے گریبان میں جھانکا۔ تو مجھ پر اس جملے کی سچائی اور اپنی نمازوں کا کھوکھلا پن خوب واضح ہو گیا۔

حدیث نبوی ﷺ کے مطابق احسن نماز وہ ہے۔ جو اس طرح ادا کی جائے کہ” نمازی کو پختہ یقین ہو کہ میں اللہ کی بارگاہ میں ہوں اور اللہ مجھے دیکھ رہا ہے۔ میں اسے دیکھ رہا ہوں۔ ” انسان بہت جلد باز ہے ، اور اس پر مستزاد اپنے عقیل ہونے کے زعم میں مبتلا ہے۔ میری ہی مثال لے لیجیئے۔ میں نے اپنی نمازوں کی کیفیت و حقیقت پر نظر ڈالے بغیر فوراً سے بھی پیشتر اس معراج والے جملے کو جھٹلانے پر کمر باندھ لی۔

جیسے نماز ایک تحفہ ہے جو اللہ نے اپنے مسلمان بندوں کو عطا کیا ہے۔ اسی طرح غالب بھی ایک انمول تحفہ ہے جو اللہ نے اپنے اردو بولنے والے بندوں کو دیا۔ اس تحفے کی جامعیت اور ہمہ گیری دیکھیئے۔ یہ صرف مسلمانوں کے لئے نہیں بلکہ ہر اس انسان کے لئے ہے جو اردو بولتا ہے یا کم از کم اردو سمجھ سکتا ہے۔ صرف اردو ہی کیوں غالب تو خود فرماتے ہیں :۔ “بنی آدم کو، مسلمان ہو یا ہندو یا نصرانی عزیز رکھتا ہوں اور اپنا بھائی گنتا ہوں۔ دوسرا مانے یا نہ مانے۔ ” لیکن یہاں چونکہ بات اردوئے معلیٰ ٰ کی ہے تو ہم صرف اردو والا پہلو مد نظر رکھتے ہیں۔ جب لارڈ میکالے نے مشرقی ادبیات کا مذاق اڑایا کہ مغربی ادب کے شاہکاروں سے بھری الماری کا ایک تختہ مشرقی ادبیات کی پوری لائبریری سے زیادہ وقیع ہے۔ تو اس وقت مشرق کے وقار اور پندار کا سہارا بنا دیوانِ غالبؔ۔

جب اقبال اور ڈاکٹر بجنوری نے غالب کو گوئٹے کے مقابل نہ صرف کھڑا کیا بلکہ غالب کا قد گوئٹے سے کچھ نکلتا ہوا ثابت کیا۔ اور شیکسپئر مشرق کے حیوانِ ظریف سے پیچھے رہ گیا تھا۔ یہ وقار صرف غالب کو ہی نہیں بلکہ غالب کے ذریعے پورے غلام مشرق کو ملا۔ اس کی پوری تہذیب کو ملا۔ گویا غالب ہمارے قومی پندار کا محافظ اور غلام مشرق کی سرفرازی کا نشان ہے۔

اور ڈاکٹر عبدالرحمن بجنوری کہہ اٹھے :۔ “ہندوستان کی الہامی کتابیں دو ہیں۔ ایک مقدس وید دوسرا دیوانِ غالب۔ “

مذکورہ بالا سطور کو بہت آسانی سے صرف “غالب کے طرفدار ” کہہ کر جھٹلایا جا سکتاہے۔ اور اسی آسانی سے اپنی سطحیت اور جہولت کا ثبوت دیا جا سکتا ہے۔

میں یہ نہیں کہتا کہ دیوانِ غالب یا اردوئے معلیٰ کسی نے نہیں پڑھے۔ مگر جیسا پڑھنے کا حق ہے ویسا یقیناً بہت کم لوگوں نے پڑھے۔ وہی فرق جو نماز والی مثال میں مَیں واضح کر آیا ہوں یہاں بھی ملحوظِ خاطر رہے تو کوئی بعید نہیں کہ کسی کو وہ غالبیانہ معراج نصیب نہ ہو جو مجھے یہ پڑھنے سے نصیب ہوئی۔

خود جنابِ مرزا نوشہ فرماتے ہیں

بخشے ہے جلوہ گل ذوقِ تماشا غالب

چشم کو چاہیے ہر رنگ میں وا ہو جانا

قطرے میں دجلہ دکھائی نہ دے ، اور جزو میں کُل

کھیل لڑکوں کا ہوا، دیدہ بینا نہ ہو ا

اس کتاب کو پڑھنے کا احسن طریقہ یہ ہے کہ آپ محسوس کریں کہ آپ غالب کے سامنے بیٹھے ہیں۔ وہ آپ کو دیکھ رہے ہیں اور آپ انہیں دیکھ اور سن رہے ہیں۔ پھر یہ خاکسار گارنٹی اور ضمانت دیتا ہے کہ آپ کی بہت سی غلط فہمیاں دور ہوں گی۔ آپ پر غالب کے بہت سے ان دیکھے اور ان سنے رنگ آشکار ہوں گے۔ دل کے صنم خانے میں دھرے بہت سے بت منہ کے بل گر جائیں گے۔ اور کوئی بعید نہیں کہ آپ بھی خود کو انا الحق کا نعرہ لگانے پر مجبور پائیں۔ لیکن اگر آپ محض اپنی مطالعہ شدہ کتب کی فہرست میں اضافے کی خاطر پڑھ رہے تو آپ ناحق اپنا وقت ضائع کر رہے ہیں۔ اس کتاب میں آپ کے کام کی کوئی چیز نہیں ہے۔

اس کتاب کو کمپوز کرتے وقت میں متن میں اپنی طرف سے کوئی کمی بیشی کرنے کا گناہگار نہیں ہوا۔ ہاں البتہ بعض الفاظ کی جدید املا قوسین میں ساتھ ہی لکھ دی۔ اور قارئین کو حواشی کے اضافی بوجھ سے سبکدوش کرنے کی کوشش کی ہے۔ جہاں جہاں مجھے غلطیاں نظر آئیں ان کا تذکرہ میں نے کتاب کے آخر میں کرنے کی بجائے “انصاف دہلیز پر ” کے اصول کے تحت وہیں قوسین میں ذکر کر دیا ہے۔

شہادت ہے مطلوب و مقصود ِ مومن

نہ مالِ غنیمت، نہ کشور کشائی

یہ کتاب بھی اسی جذبے کے تحت کمپوز کی گئی۔ اس سے کسی قسم کی نمود و نمائش یا ذاتی مفاد مطلوب نہیں۔ یہ صرف ایک عظیم زبان اور ایکعظیم انسان اور استاد کو ایک ہیچمداں شاگردی کے دعوے دار کا چھوٹا سا خراجِ تحسین ہے۔ اور اپنے جیسے بے شمار قتیلانِ غالب کی خدمت میں ایک برادرانہ نذرانہ ہے۔

گر قبول افتد زہے عز و شرف

احقر العباد:۔ سید اویس قرنی المعروف بہ چھوٹا غالب

دیباچہ
من تصنیف شاعر شیریں مقال ناثر عدیم المثال جناب میر مہدی صاحب المتخلص بہ مجروح شاگرد رشید جناب مرزا اسد اللہ خان غالب مد ظلہم
ستایش داور جہاں آفرین آسان نہیں کیونکر بیان ہو اور نعت سید المرسلینﷺ مشکل ہے زبان کیا مرد میدان ہو وہ دریائے ذخار ہے یہ محیط ناپیدا کنار ہے۔ وہاں ذہن نا رسا اور فہم بے سروپا یہاں عقل معترف بعجز و قصور و خرد ناچار و مجبور۔ پھر اس صورت میں قلم مقطوع اللسان کیا نگارش کرے سوائے اس کے کہ اصل مطلب گزارش کرے اور وہ یہ ہے کہ سخنورانِ خرد پیشہ اور خرد مندانِ درست اندیشہ خوب جانتے ہیں کہ ہمیشہ سے کلام عرب کی شیرینی اور زبان عجم کی نمکینی گوش زد خاص و عام ہے اور ہر عقیل و فہیم اسی بات پر متفق الکلام ہے۔ مگر یہ جو زبانِ اردو نے ہندوستان میں رواج پایا ہے یہ بھی ترکیب کی خوبی اور حسن کی اسلوبی میں انہی زبانوں کے ہم پایہ ہے۔ اگر فصحائے عرب و عجم کماحقہ اس زبان کی ماہیت پر عبور پائیں تو اپنی زبان سے زیادہ اس کی تحسین فرمائیں ہر چند ابتدائے رواج سے ہر عہد میں کاملانِ عصر اس معشوقہ خرد فریب کی آراستگی و پیراستگی میں سعی فراواں اور کوشش بے پایاں کرتے آئے ہیں مگر بفعل اس زمانہ میں اس زبان کی خوبی کا یہ مرتبہ پہنچا ہے کہ بیان سے باہر ہو گیا ہے اب یہ بدرِ انور بدرجہ کمال ہے آگے بیمِ زوال ہے خصوصاً زبانِ اہلِ دہلی کہ اردوئے معلی بولنا ان کا حصہ ہے۔ ہر چند بعض حضرات کو اس بات کا غصہ ہے مگر جو صاحب کہ فہمِ سلیم و ذہنِ مستقیم و طبع رسا و مزاجِ آشنا رکھتے ہیں وہ اس امر کو مان جانتے ہیں معوج الذہن و کج رائے یوں ہی باتیں بتاتے ہیں بھلا دہلی کا اس قدر کیونکر نہ مرتبہ ہو جب اس عدیم النظیر کا یہ شہر مینو بہر مسکن و ماوا ہو جس کی طبع و قاد نے عقدہائے معانی کو وا کیا ہے جس کے ذہن نقاد نے پست٭ (کتاب میں پُشت لکھا ہے :۔ چھوٹا غالب) و بلند شاہراہِ سخن کو ہموار و مصفا کیا ہے۔ فصاحت اگر لعل ناب ہے تو وہ اس کی آب و تاب ہے اور بلاغت اگر گوہر بے بہا ہے تو وہ اس کی آبروئے گوہر فزا ہے۔ معنی اگر گل ہے تو وہ اس کی شمیم روح فزا ہے اور سخن اگر آئینہ ہے تو وہ اس کی صیقل جلوہ نما ہے۔ اس کا سینہ بے کینہ نکات حکمیہ کا گنجینہ اس کا قلب با صفا اسرارِ علمیہ کا دفینہ شعرو شاعری کی اس ذات نے رونق بڑھائی ہے اردو نے اس کی زبان پر گزر کر عزت پائی ہے جس قدر تعریف کہ برمز و ایما ہے یہ جناب نجم الدولہ دبیر الملک نواب اسد اللہ خان صاحب غالب تخلص کی ذاتِ با برکات کی خوبیوں کا ایک ادنی شمّہ ہے
؎ میرا اُ ستاد کہ ہے جس کا سخن عالمگیر

ہے ظہوری کا ظہور اور نظیری کا نظیر

حضرت کا جو سخن ہے وہ دُرِ عدن ہے جو بات ہے از رہِ معنی کرامات ہے۔ یہ نثر کی رنگینی، یہ نظم کی شیرینی، یہ غزل کی فصاحت، یہ قصیدہ کی متانت، یہ لفظوں کی محبوبی، یہ ترکیب کی خوش اسلوبی، یہ جدتِ معانی، یہ طلاقتِ لسانی، یہ سلاستِ عبارت، یہ روانی مطالب دیکھی نہ سنی سطریں ہیں کہ موتی کی لڑیاں ہیں۔ یہ باتیں ہیں کہ مصری کی ڈلیاں ہیں۔ نثر نثرہ نثار پر نظم انجم قربان۔ حسن تقریر پر تحریر شعاع سے نثار کرنے کو آفتاب زر بداماں۔ گفتارِ شکر بار کو جادو کہوں سحر کہوں حیران ہوں کیا کہوں۔ لاحول ولاقوۃ کیا سودائیوں کی باتیں کرتا ہوں کیا جادو ہے کیا سحر کا اثر ہے۔ گفتار اعجاز طراز کے رشک سے ہندوستان میں نہ جادو ہے نہ سحر ہاں بابل کے کسی کونے میں چھپا ہو تو کیا خبر ہے بھلا اس عبارتِ فصاحت نشان کا کیا وصف بیان ہو جس کی صفائی استعارات کی خجلت سے دُرِ شہوار پانی پانی۔ جس کی رنگینی فقرات سے جگر خون لعل رمانی۔ نہیں نہیں یہ ستایش کچھ سرمایہ نازش نہیں۔ کیا موتی کیا لعل ان کی وجہ قدر و مقدار یعنی آب و تاب اندک تغیر میں نایاب ہے۔ اور یہ قیامت تک یکساں۔ تہیدستانِ سرمایہ سخن کو فیض رسانِ عبارتِ متین کی کیفیت دیکھ کر جامی تو کیا افلاطون خم نشین کے نشے ہرن ہوتے ہیں اور اس کے ادراکِ غوامض میں اپنی عقل و خرد کھوتے ہیں جہاں ایسے ایسے سرخوشان خمستانِ معنی جرعہ خوار بادہ گفتار اور نشہ حسنِ بیان سے سرشار ہوں پھر ہم سے نارسیدہ اس پختگی مطالب کو کیا پائیں کہاں سے ایسی قوتِ متخیلہ لائیں سوائے اس کے کہ یہ راہِ باریک دیکھ کر قدم لڑکھڑائیں اور اپنی نا فہمی پر عرقِ انفعال میں غوطہ کھائیں۔ مگر افسوس کہ اس جنسِ گراں ارز کا کوئی خریدار نہ ہوا اور اس یوسفِ مصرِ سخندانی کا کوئی طالبِ دیدار نہ ہوا۔ حضرت کا ظہور حضرت اکبر شاہ کے عہد میں ہوتا شاہ عباس دارائے ایران کے عصر میں ہوتا۔ نظیری اپنا نظیر دیکھ لیتا۔ ظہوری کو فنِ شعر میں اپنا حریفِ غالب نظر آ جاتا۔ خیر اب ہم یوں دل خوش کرتے ہیں کہ اگر حضرت اس وقت میں زینت بخشِ جہان ہوتے تو ہم کہاں ہوتے یہ ہمارے طالع کی خوبی یہ ہماری خوش نصیبی کہ ایسے منتخب روزگار کے جمالِ با کمال سے مقتبنس انوارِ فیض ہوئے اور شرفِ قدم بوسی سے بہرہ اندوز۔ جب حضرت کو دیکھ لیا گویا سب سخندانِ پیشینیہ کو دیکھ لیا۔ جب حضرت کا کلام سن لیا سب کا کلام سن لیا۔ مبیّن میرے قول کی یہ اردو کی تحریر ہے کہ سہل الممتنع کیا بلکہ ممتنع النظیر ہے۔ اس اردو کا نیا انداز ہے کہ جس کے دیکھنے سے روح کو اہتزاز ہے جو کہ بعد تکمیل ہو جانے کلیاتِ نظم و نثر فارسی کہ وہ ہر ایک آویزہ گوشِ فصاحت و پیرایہ گلوئے بلاغت ہے اور ہندوستان سے ایران تک یہ ایک نکتہ سنج کے وردِ زبان ہے مدت سے حضرت کو اس طرزِ نو ایجادِ اردو سے لگاؤ ہے اور خط و کتابت میں اسی کا برتاؤ ہے۔ جب شائقینِ ہنر دوست نے اس نمک ہندی کا مزہ چکھا ہر ایک سرمایہ لذت مائدہ سخن سمجھ کر طلبگار خواستگار ہوا۔ اس واسطے منشی جواہر سنگھ صاحب جوہر ؔ نے کہ یہ صاحب اخلاق و مروت میں یکتا اور علم دوست و ہنر آشنا ملازمیں معززین سرکار سے ہیں۔ اور اب پنشن دار ہیں۔ علم فارسی کو خوب جانتے ہیں اشعار بھی اسی زبان میں فرماتے ہیں منشی صاحب کے اشعار قابل دید ہیں جناب مرزا صاحب کے شاگرد رشید ہیں۔ چنانچہ خود جناب مرزا صاحب فرماتے ہیں ؎ در معرکہ تیغیم کہ جوہر داریم۔

ان کی طبع والا نے یہ اقتضا کیا یہ گہر ہائے شب افروز سلکِ تحریر میں منسلک ہو کر زینت بخشِ عروسِ سخن ہوں اور یہ گلہائے پراگندہ جمع ہو کر ایک جا گلدستہ ہوں تا اس کی روائح روح پرور سے دماغ نکتہ سرایاں غیرتِ چمن ہو۔ اس واسطے میر فخر الدین صاحب مہتمم اکمل المطابع دہلی نے سعی بے پایاں اور لالہ بہاری لال صاحب منشی مطبع مذکور نے کوششِ فراوان سے اکثر خطوط جمع کیے اور قصد انطباع کیا اور اردوئے معلیٰ نام رکھا گیا اور ان خطوں کو دو حصوں پر منقسم کیا۔ پہلے حصہ میں صاف صاف عبارت کے خط تحریر کیے تا طلبائے مدرسہ فائدہ اٹھائیں۔ دوسرے حصہ مطالب مشکلہ کی تحریر اور تقریظ وغیرہ لکھی تا سخنوران معنی یاب اس کے دیکھنے سے مزہ پائیں اور منشی صاحب موصوف نے اس ہیچمدان خاکسار مجروح دل افگار سے اس کا دیباچہ لکھنے کو فرمایا۔ بندہ یہ سن کر حیران ہوا یہ یارب دُرِ شاہوار کے سامنے خزف ریزوں کا کیا اعتبار اور لعل و زمرد میں پتھر کے ٹکڑوں کا کیا وقار مگر “الامر فوق الادب”سمجھ کر اپنے کو اسی خوانِ نعمت کا ذُلّہ چین جان کر یہ چند سطریں لکھیں۔ بقول عرفی؎

چو ذرہ گر حقیریم نسبتیم ایں بس

کہ آفتاب بود نقطہ مقابل ما
 

Zia_Hayderi

TM Star
Mar 30, 2007
2,468
1,028
1,213
٭2-
رقعہ بنام نواب میر غلام بابا خان بہادر
نواب صاحب جمیل المناقب عمیم الاحسان سلامت۔ فقیر اسد اللہ عرض کرتا ہے کہ آپ کے خط کے آنے نے میری آبرو بڑھائی۔ حق تعالیٰ تمہیں سلامت رکھے ۳۲دُرفشِ کاویانی کی رسید پہنچی۔ بموجب ارشاد کے اب اور نہ بھیجوں گا۔ قبلہ غرض شہرت ہے۔ اس قلمرو میں مَیں نے جلدیں تقسیم کی ہیں اس ملک میں آپ بانٹ دیں۔ اتنی میری عرض قبول ہو کہ بڑودہ گجرات میں سید احمد حسن صاحب مودودی اور میر ابراہیم علی خاں صاحب کو ایک ایک جلد بھجوا دیجئے گا۔ اور چھ جلدیں مولانا سیف الحق کو عطا کیجئے گا۔ کہ وہ اپنے دوستوں کو بھجوا دیں۔ خواجہ بدر الدین خاں میرے بھتیجے نے بوستانِ خیال کو اردو لکھا ہے اس کا ایک اشتہار اور یہاں ایک اخبار نیا جاری ہونے والا ہے اس کے دو اشتہار اس خط کے ساتھ بھیجتا ہوں آپ یا آپ کے احباب میں سے کوئی صاحب کتاب کے یا اخبار کے خریدار ہیں تو اشتہار کے مضمون کے مطابق عمل میں لائیں۔ والسلام مع الاکرام۔ میاں سیف الحق سیاح کو سلام۔ ۲۲ مارچ ۱۸۶۶ء
ایضاً
سبحان اللہ تعالیٰ شانہ ما اعظم برہانہٗ۔ جناب مستطاب نواب میر غلام بابا خاں بہادر سے بتوسط منشی میاں داد خاں صاحب شناسائی بہم پہنچی۔ لیکن واہ اول ساغر و دُردی کیا جگر خون کن اتفاق ہے۔ پہلا عنایت نامہ جو حضرت کا مجھ کو آیا اس میں خبرِ مرگ۔ اب میں جو اس کا جواب لکھوں اور یہ میرا پہلا خط ہو گا لامحالہ مضامیں اندوہ انگیز ہوں گے نہ نامہ شوق نہ محبت نامہ صرف تعزیت نامہ صریر قلم ماتمیوں کے شیون کا خروش ہے جو لفظ نکلا وہ سیاہ پوش ہے۔ ہے ہے نواب میر جعفر علی خاں جیسا امیر روشن گہر نام آور۔ رُوشناس اعیان ہندو انگلینڈ وسط جوانی یعنی ۴۶ برس کی عمر میں یوں مر جائے ؎نخل چمن سروری افتادز پاہائے
سچ تو یوں ہے کہ یہ دہر آشوب غم ہے مجموع اہل ہند ماتم دار و سوگوار ہوں تو بھی کم ہے۔ اگرچہ میں کیا اور میری دعا کیا مگر اس کے سوا کہ مغفرت کی دعا کروں اور کیا کروں۔ قطعہ سالِ رحلت نواب غفران مآب جب دل خار خار غم سے پُر خون ہوا ہے تو یوں موزوں ہوا ہے ؎
گردید نہاں مہر جہانتاب دریغ
شد تیرہ جہاں بچشمِ احباب دریغ
ایں واقعہ راز روئے زاری غالبؔ
تاریخ رقم کرد کہ نواب دریغ
ازروئے زاری زاءِ ہوز کے عدد بڑھائے جائیں تو سنہ ۱۲۸۰ ھ پیدا ہوتے ہیں فہذا المطلوب شریک بزم ماتم منشی میاں داد خاں صاحب کو سلام۔ یکشنبہ بست و یکم ربیع الاول ۱۲۸۰ ہجری مطابق ششم ستمبر ۱۸۶۳ء
ایضاً
نواب صاحب جمیل المناقب عمیم الاحسان عنایت فرمائے مخلصان زاد مجدہ۔ شکر یاد آوری و رُواں پروری بجا لاتا ہوں۔ پہلے اس سے کہ آپ کا موّدت نامہ پہنچا ہے۔ وہ میرے خط کے جواب میں تھا اس کا جواب نہیں لکھا گیا۔ پرسوں میاں سیف الحق کا خط پہنچا۔ خط کیا تھا خوانِ دعوت تھا میں نے کھانے بھی کھائے میوے بھی کھائے۔ ناچ بھی دیکھا گانا بھی سنا۔ خدا تم کو سلامت رکھے کہ اس نالائق درویش گوشہ نشین پر اتنی عنایت کرتے ہو صاحب ر یاست و امارت میں ایسے جھگڑے بہت رہتے ہیں میں بسببِ فرطِ محبت اخبار میں تمہاری افزایش عز و جاہ دیکھ کر بہت خوش ہوا اور تم کو تہنیت دی۔ ظفر نامہ ابد۔ بہت مبارک لفظ ہے۔ انشاءاللہ العظیم ہمیشہ مظفر و منصور ہو گے ؎ کارت بجہان جملہ چناں باد کہ خواہی۔
نجات کا طالب غالب۔ سہ شنبہ ۳ اپریل۱۸۶۷ ء
ایضاً
جناب سید صاحب و قبلہ بعد بندگی عرض کرتا ہوں کہ عنایت نامہ آپ کا پہنچا آپ جو فرماتے ہیں کہ تو اپنی خیر و عافیت کبھی کبھی لکھا کر۔ آگے اتنی طاقت باقی تھی کہ لیٹے لیٹے کچھ لکھتا تھا اب وہ طاقت بھی زائل ہو گئی۔ ہاتھ میں رعشہ پیدا ہو گیا۔ بینائی ضعیف ہو گئی۔ متصدی نوکر رکھنے کا مقدور نہیں۔ عزیزوں ، دوستوں میں سے کوئی صاحب وقت پر آ گئے تو میں مطلب کہتا گیا اور وہ لکھتے گئے۔ یہ حسنِ اتفاق ہے کہ کل آپ کا خط آیا۔ آج ہی ایک دوستمیرا آ گیا کہ یہ سطریں لکھوا دیں اور یہ آپ نہ فرمائیں کہ منشی میاں داد خاں سے تجھے قطع محبت ہو گیا ہے۔ منشی صاحب کی محبت اور ان کے توسط سے آپ کی محبت دل و جان میں اس قدر سما گئی ہے۔ جیسا اہل اسلام میں ملکہ ایمان کا پس ایسی محبت کا موقوف ہونا کبھی ممکن نہیں۔ امراضِ جسمانی کا بیان اور اخلاص ہمدگر کی شرح کے بعد ہجوم غمہائے نہانی کا ذکر کیا کروں جیسا ابر سیاہ چھا جاتا ہے یا ٹڈی دل آتا ہے بس اللہ ہی اللہ ہے۔ سیف الحق منشی میاں داد خاں کوسلام کہیئے گا اور یہ خط پڑھا دیجئے گا۔ فقط نجات کا طالب۔ غالبؔ۔ روز چہار شنبہ ۶ اپریل ۱۸۶۸ء
ایضاً
بخدمت نواب صاحب جمیل المناقب عمیم الاحسان نواب میر غلام بابا خاں صاحب بہادر دام مجدہ۔
عرض کیا جاتا ہے کہ آپ کا عنایت نامہ اور مولانا سیف الحق کا مہربانی نامہ دونوں لفافے ایک دن پہنچے۔ سیف الحق کے خط سے معلوم ہوا کہ رجب کے مہینے میں شادیاں قرار پائی ہیں مبارک ہو اور مبارک ہو۔ نظارہ بزم جمشیدی سے محروم رہوں گا مگر میرا حصہ مجھ کو پہنچ رہے گا خاطر جمع رہے۔ کیوں حضرت صاحبزادہ کا اسم تاریخی پسند آ گیا کہ یا نہیں۔ ؟ نام تاریخی اور پھر سید بھی اور خان بھی۔ سید مہابت علی خاں (۱۲۸۳ھ)
عجب ہے اگر پسند نہ آئے اور بہت عجب ہے کہ اس امر کی نہ آپ کے خط میں توضیح نہ میاں داد خاں کے خط میں۔ خیر میں نہیں کہتا کہ خواہی نخواہی یہی نام رکھیے پسند آنے نہ آنے کی تو فقیر کو اطلاع ہو جائے۔ جواب کا طالب۔ غالب۔ ۹ اگست ۱۸۶۷ء
ایضاً
ستودہ بہر زماں و نامور بہر دیار نواب صاحب شفیق کرم گستر مرتضوی و یتار نواب میر غلام بابا خان بہادر کو مسرت بعد مسرت و جشن مبارک و ہمایوں ہو۔ رقعہ گلگوں نے بہار کی سیر دکھلائی۔ بسواری ریل روانہ ہونے کی لہر دل میں آئی۔ پاؤں سے اپاہج، کانوں سے بہرا، ضعفِ بصارت، ضعفِ دماغ، ضعفِ دل، ضعفِ معدہ۔ ان سب ضعفوں پر ضعفِ طالع۔ کیونکر قصدِ سفر کروں۔ تین چار شبانہ روز قفس میں کس طرح بسر کروں۔ گھنٹہ بھر میں دو بار پیشاب کی حاجت ہوتی ہے۔ ایک ہفتہ دو ہفتہ کے بعد ناگاہ قولنج کے دورے کی شدت ہوتی ہے۔ طاقت جسم میں ، حالت جان میں نہیں آنا میرا سُورت تک کسی صورت چیز امکان میں نہیں۔ خط لکھتے لکھتے خیال میں آیا کہ جیسا سید صاحب کی ولادت کی تاریخ لکھی سیدانی صاحبہ کی بسم اللہ کی بھی تاریخ لکھا چاہیے۔ “ماہِ خجستہ بہار” ذہن میں آیا۔ سات عدد کم پائے۔ خجستہ بہار پر ادب کے اعداد بڑھائے۔ شمار میں ۱۲۸۳ نظر آئے۔ دوسرے ورق پر وہ قطعہ مرقوم ہے۔ بوڑھوں کی طاقتِ فکر معلوم ہے۔ صرفجوشِ محبت سے چار مصرعے موزوں ہوئے ہیں۔ گر قبول افتد زہے عز و شرف۔
راقم اسد اللہ خاں غالب۔ ۱۴ نومبر ۱۸۶۶ء۔ سیف الحق صاحب کو سلام۔ ایک میرے دوست مصور خاکسار کا خاکہ اتار کر دربار کا نقشہ اتارنے اکبر آباد گئے ہیں وہ آ جائیں تو شغلِ تصویر تمام ہو کر آپ کے پاس پہنچ جائے۔ خط از راہِ احتیاط بیرنگ بھیجا ہے۔
قطعہ
خجستہ جشن و بستاں نشینی بیگم
بفیض ہمت نواب و یمن و اقبالش
چو از پے ادب آموزیست خوش باشد
اگر خجستہ بہار ادب بود سالش
ایضاً
۔ چھوٹا غالب
 
  • Like
Reactions: HorrorReturns

Zia_Hayderi

TM Star
Mar 30, 2007
2,468
1,028
1,213

3-
نواب صاحب جمیل المناقب عمیم الاحسان عالی شان والا دودماں زاد مجد کم۔ سلام مسنون الاسلا م و دعائے دوام دولت و اقبال کے بعد عرض کیا جاتا ہے کہ ان-
ایام میمنت فرجام میں جو ازروئے اخبار بمبئی آپ کی افزایشِ عز و جاہ کے حالات معلوم ہوئے۔ متواتر شکر الٰہی بجا لایا۔ اور اس ترقی کو اپنی دعا کا نتیجہ جان کر اور زیادہ خوش ہوا۔ خصوصاً عدالت العالیہ میں فتح پانا اور حق حقیقی کا ظہور میں آنا کیا کہوں کیا مسرت و شادمانی کا موجب اور کس طرح کی نشاط اور انبساط کا سبب ہوا ہے حق تعالیٰ یہ فتح مبارک و ہمایوں کرے۔
قطعہ
فتح سید غلام بابا خاں
خود نشانِ دوامِ اقبال است
ہم ازین رُو بود کہ غالب ؔ گفت
کہ ظفر نامہ ابد سال است
بہار باغ جاہ و جلال جاوداں باد۔ اسد اللہ خان غالب ؔ۔ فقط
ایضاً
جناب نواب صاحب میں آپ کے اخلاق کا شاکر اور آپ کی یاد آوری کا ممنون اور آپ کے دوامِ دولت کا دعا گو ہوں اگر بوڑھا اور اپاہج نہ ہوتا تو ریل کی سواری میں مقرر آپ تک پہنچتا۔ اور آپ کے دیدار سے مسرت اندوز ہوتا۔ آپ میرے شفیق اور میرے محسن ہیں خدا آپ کو ہمیشہ سلامت با کرامت رکھے۔ خط کے دیر دیر لکھنے کا سبب ضعف و نقاہت ہے اگر میری اوقات ِ شباروزی اور میرے حالات آپ دیکھیں تو تعجب کریں گے کہ یہ شخص جیتا کیونکر ہے صبح سے شام تک پلنگ پر پڑا رہنا۔ اور پھر دم بدم پیشاب کو اٹھنا۔ ان مجموع مصائب میں سے ایک ادنی مصیبت یہ ہے کہ ۱۲۸۶ ھ شروع ہوئے ۱۲۱۲ ھ کی ولادت ہے۔ اب کے رجب کے مہینے سے سترواں (۷۰) سال شروع ہو گا۔ ستر ا بہترا بوڑھا اپاہج آدمی ہوں۔ جو عنایت تم میرے حال پر فرماتے ہو صرف تمہاری خوبی ہے۔ میں کسی لائق نہیں۔
نجات کا طالب۔ غالب۔ چہار شنبہ ۳۱ مئی سنہ ۱۸۶۷ء۔
ایضاً
بجناب نواب صاحب جمیل المناقب عمیم الاحسان سلمہ اللہ تعالیٰ۔ بعد سلام مسنون الاسلام و دعائے دولت و اقبال کہ ہمیشہ وردِ زبان ہے گھڑی کے عطیہ کا شکر ہر گھڑی اور ہر ساعت بجا لاتا ہوں۔ پہلے تو آپ دوست اور پھر امیر اور پھر سید۔ نظر ان تین امور پر اس ارمغاں کو میں نے بہت عزیز سمجھا اور اپنے سر اور آنکھوں پر رکھا خدائے عالم آرائے آپ کو سلامت رکھے اور ہر گھڑی آپ کا ممد و مددگار رہے ظاہر اًبوقت روانگی کنجی کا رکھنا سہو ہو گیا خیر یہاں بن جائے گی۔ والسلام بالوف الاحترام۔ خوشنودی احباب کا طالب۔شنبہ سوم دسمبر ۱۸۶۴ء۔
ایضاً
نواب صاحب جمیل المناقب عمیم الاحسان امید گاہ ِ درویشان زاد افضالکم۔ آپ کا بندہ منت پذیر غالب خونین صفیر یوں نوا سنج ہوتا ہے کہ عنایت نامہ عز و رود لایا۔ اور مژدہ قبول سے میرا رتبہ بڑھایا جو کچھ میرے حق میں ارشاد ہوا ہے اگر اس کو قدر دانی کہوں تو لازم آتا ہے کہ اپنے کو ایک طرح کے کمال کا مالک سمجھ لوں۔ البتہ آپ نے از راہِ حق پسند ی سخن کی قدر دانی اور میری قدر افزائی کی ہے جو اغلاط فارسی دانانِ ہند کے ذہن میں راسخ ہو گئے تھے۔ ان کو دفع کیا ہے تو کیا برائی کی ہے۔ بات یہ ہے کہ اوچھی پونجی والے گمنام لوگ اپنی شہرت کے لئے مجھ سے لڑتے ہیں واہ واہ اپنے نامور بنانے کو ناحق احمق بگڑتے ہیں۔ عطیہ حضرت بتوسط جناب سیف الحق پہنچا اور میں نے اس کو بے تکلف عطیہ مرتضوی سمجھا۔ علی المرتضیٰ علیہ التحیہ والثنا آپ کا دادا اور میرا آقا۔ خدا کا احسان ہے کہ میں احسان مند بھی ہوا تو اپنے خداوند کے پوتے کا۔ آج سے کاپی لکھی جانے لگی اور تصحیح کو میرے پاس آنے لگی۔ چھاپے کے واسطے برسات کا موسم اچھا ہے بس اب اس کے چھپ جانے میں دیر کیا ہے۔
نجات کا طالب۔ غالب۔ صبح یکشنبہ۔ ۱۷ دسمبر سنہ ۱۸۶۰ ء
بنام منشی میاں داد خاں المخاطب بہ سیف الحق المتخلص بہ سیاح
سعادت و اقبال نشان منشی میاں داد خاں سے میں بہت شرمندہ ہوں کہ ان کے خطوط کا جواب نہیں لکھا۔ غزلوں کے مسودے گم ہو گئے اس شرمندگی سے پاسخ نگار نہ ہوا ابیہ سطریں جو لکھتا ہوں اُس خط کے جواب میں ہیں جو بنارس سے آیا ہے۔ بھائی بنارس خوب شہر ہے اور میرے پسند ہے ایک مثنوی میں نے اس کی تعریف میں لکھی ہے اور چراغِ دیر اس کا نام رکھا ہے وہ فارسی دیوان میں موجود ہے اس کو دیکھنا۔ اشرف حسین خاں صاحب میرے دوست ہیں فتنہ و فساد کے زمانہ سے بہت پہلے ان کا خط اور کچھ ان کا کلام میرے پاس آیا ہے تم ان کو میرا سلام کہنا اور میں تم سے یہ توقع رکھتا ہوں کہ جس طرح تم نے لکھنؤ سے بنارس تک کے سفر کی سرگزشت لکھی ہے اسی طرح آئندہ بھی لکھتے رہو گے۔ میں سیر وسیاحت کو بہت دوست رکھتا ہوں ؎
اگر بدل نہ خلد ہر چہ از نظر گزرد
زہے روانی عمر ے کہ در سفر گزرد
خیر اگر سیر و سیاحت میسر نہیں نہ سہی ذکر العیش نصف العیش پر قناعت کی۔ میاں داد خاں سیاح کی سرگزشت سیر سفر ہی سہی۔ غزل تمہاری رہنے دیتا ہوں۔ اس کے دیکھنے کی بھی فرصت نہیں ہے جیسا تم نے وعدہ کیا ہے جب اور غزلیں بھیجو گے ان کے ساتھ اس کو بھی دیکھ لوں گا بلکہ احتیاط متقضی اس کا ہے کہ ان غزلوں کے ساتھ اس غزل کو بھی لکھ بھیجنا۔ ناتوانی زور پر ہے۔ بڑھاپے نے نکما کر دیا ہے۔ ضعف، سستی، کاہلی، گرانجانی گرانی۔ رکاب میں پاؤں ہے باگ پر ہاتھ ہے۔ بڑا سفر دور دراز درپیش ہے۔ زادِ راہ موجود نہیں۔ خالی ہاتھ جاتا ہوں۔ اگر ناپرسیدہ بخش دیا تو خیر۔ اگر باز پرس ہوئی تو سقر مقر ہے اور ہاویہ زاویہ ہے۔ دوزخ جاوید ہے اور ہم ہیں۔ ہائے کسی کا کیا اچھا شعر ہے۔
اب تو گھبرا کے یہ کہتے ہیں کہ مر جائیں گے
مر کے بھی چین نہ پایا تو کدھر جائیں گے
اللہ اللہ اللہ ۔ نجات کا طالب غالبؔ۔ صبح دو شنبہ ۳۱ دسمبر سنہ ۱۸۶۰ ء
٭٭ سقر (دوزخ) ٭٭ مقر (ٹھکانا) ٭٭ ہاویہ (طبقہ دوزخ ) ٭٭ زاویہ (گوشہ)
ایضاً
صاحب یہ سر پیٹنے کی جگہ ہے کہ تمہارا کوئی خط ڈاک میں ضائع نہیں ہوتا اور میرا کوئی خط تم کو نہیں پہنچتا۔ سنو چھوٹے صاحب کا خط آیا۔ اس میں قطعہ کا شکر اور اجزائے کتاب کے بھیجنے کی تاکید تھی۔ اس نے اس کے جواب میں لکھا کہ اس کتاب کا چھاپا یہاں ہی شروع ہو گیا انشاءاللہ تعالیٰ بعد انطباع ایک مجلد آپ کے واسطے اور ایک مجلد منشی میاں داد خاں کے واسطے بسبیل ڈاک پارسل بھیجوں گا۔ اب تم نواب صاحب سے میرا سلام کہو۔ اور یہ اپنے نام کا خط ان کو پڑھا دو اور ایک پتہ تم کو دیتا ہوں۔ نواب صاحب کا جو خط طلب کتاب کے باب میں آیا تھا اس میں مندرج تھا کہ اب میں سُورت کو جاتا ہوں تم اجزائے کتاب کا پارسل اس پتہ سے سُورت کو بھیجنا۔ بھائی میں نے اسی پتہ سے خط بھیجا تھا نہ پہنچے تو میرا کیا گناہ۔ پیڈ خط گاہ گاہ تلف بھی ہو جاتا ہے نظر اس بات پر یہ خط تم کو بیرنگ بھیجتا ہوں تاکہ ضائع ہونے کا احتمال قوی رہے۔ فقط
صبح دو شنبہ، ۱۴ ربیع الثانی۔ مطابق ۱۷ ستمبر سالِ حال۔ غالبؔ
ایضاً
منشی صاحب سعادت و اقبال نشان سیف الحق میاں داد خان سلّمکم اللہ تعالیٰ۔ فقیر کی طرف سے سلام و دعا قبول کریں۔ چھوٹے صاحب کی تصویر کی رسید میں بھائی محمد حسین خان سے کہا گیا تھا کہ تم تصویر کے پہنچنے کی اطلاع دے دینا سواب تمہاری تحریر سے معلوم ہوا کہ انہوں نے اطلاع دی ہے حال تصویر کا یہ کہ میں نے اسے سر پر رکھا آنکھوں سے لگایا گویا چھوٹے صاحب کو دیکھا۔ لیکن اس کا سبب نہ معلوم ہوا کہ نواب صاحب نے ہم سے بات نہ کی۔ خیر دیدار تو میسر گفتار بھی اگر خدا چاہے گا تو سن لیں گے۔ دیکھو منشی صاحب آئینہ تصویر کی صنعت کو سب پسند کرتے ہیں مگر فقیر اس کا معتقد نہیں۔ اب دیکھو حضرت کی تصویر میں کہنیوں تک ہاتھ کی تصویر ہے آگے پہنچے اور نیچے کا پتہ نہیں۔ مکالمہ ایک طرف مصافحہ کی بھی حسرت رہ گئی۔ اس وقت جدا گانہ خط لکھنے کی فرصت نہیں۔ نواب صاحب سے میرا بہت بہت سلام اور اشتیاق کہنا بلکہ یہ خط ان کو ضرور دینا کہ وہ پڑھ لیں۔ میں سادات کا نیاز مند اور علی کا غلام ہوں۔ ؎ بندہ شاہ شمائیم و ثنا خوانِ شما۔ نجات کا طالب غالبؔ۔ ۱۷ ذیقعد۱۶۸۱ہجری
ایضاً

ے سے بھی بچی رہی :
 
  • Like
Reactions: HorrorReturns

Zia_Hayderi

TM Star
Mar 30, 2007
2,468
1,028
1,213

4-
برخوردار کامگار سعادت نشان منشی میاں داد خاں سیاح طال عمرہ۔ درویش گوشہ نشین غالبؔ حزین کی دعائے درویشانہ سے کامیاب و بہرہ مند ہوں۔ لکھنؤ کی ویرانی پر دل جلتا ہے مگر تم کو یاد رہے کہ وہاں بعد اس فساد کے ایک کون ہو گا یعنی راہیں وسیع ہو جائیں گی بازار اچھے نکل آئیں گے جو دیکھے گا وہ داد دے گا اور دلی کے فساد کون نہیں ہے یہاں فساد در فساد چلا جائے گا شہر کی صورت سوائے اس بازار کے جو قلعہ کے لاہوری دروازہ سے شہر کے لاہوری دروازہ تک ہے سراسر بگڑ گئی اور بگڑتی جاتی ہے۔ دیوان کا چھاپا کیسا؟ وہ شخص ناآشنا موسوم بہ عظیم الدین جس نے مجھ سے دیوان منگا بھیجا۔ آدمی نہیں ہے بھوت ہے پلید ہے۔ غول ہے قصہ مختصر سخت نامعقول ہے۔ مجھ کو اس کے طور پر انطباع دیوان نا مطبوع ہے اب میں اس سے دیوان مانگ رہا ہوں اور وہ نہیں دیتا خدا کرے ہاتھ آ جائے تم بھی دعا مانگو۔ زیادہ کیا لکھوں۔ دو شنبہ ۱۱ جون ۱۸۶۰ء۔ غالبؔ
ایضاً
صاحب تمہارا مہربانی نامہ کہ گویا الفاظ اس کے سراسر نواب میر غلام بابا خاں صاحب کی زبانی تھے ، پہنچا۔ جواب لکھتا ہوں۔ اور پرسش کا شکر بجا لاتا ہوں ایک قرن بارہ برس سے فردوس مکان نواب یوسف علی خان والی رام پور اپنے اشعار میرے پاس بھیجتے تھے اور سو روپیہ مہینہ ماہ بماہ بسبیل ہنڈوی بھجواتے تھے۔ اس مغفور کی اندازہ دانی دیکھئے کہ مجھ سے کبھی اس روپیہ کی رسید نہیں لی۔ اپنے خط میں ہنڈوی بھیجا کرتے۔ میں خط کا جواب لکھ بھیجتا۔ اس ماہانہ کے علاوہ کبھی دو سو کبھی ڈھائی سو بھیجتے رہے۔ فتنہ و فساد کے دنوں میں قلعہ کی آمد مفقود۔ انگریزی پنشن مسدود۔ یہ بزرگوار وجہ مقرری ماہ بماہ اور فتوح گاہ گاہ بھیجتا رہا تب میری اور میرے متوسلوں کی زیست ہوئی۔ رئیس حال کو خدا بدولت و اقبال ابداً موبداً سلامت رکھے وجہ مقرری کی ہنڈوی ہر مہینے بحسبِ دستور ِ قدیم اپنے خط میں بھیجا جاتا ہے۔ فتوح کی رسم دیکھئے جاری رہے یا نہیں۔ میرے پاس روپیہ کہاں جو قاطع برہان کو دوبارہ چھپواؤں پہلے بھی نواب مغفور نے دو سو (۲۰۰)روپیہ بھیج دئیے تھے تب پہلا مسودہ صاف ہو کر چھپوایا گیا تھا۔ اب بھی وعدہ کیا تھا کہ اپریل کی وجہ مقرری کے ساتھ دو سو پہنچیں گے وہ آخر اپریل ۱۸۶۵ء حال میں مر گئے۔ اپریل کا روپیہ رئیس حال سے میں نے پایا مصروف کتاب کا روپیہ نہ آیا۔ یاد دلاؤں گا۔ مگر اس مرحوم کا وعدہ سرشتہ دفتر سے نہ تھا جو از روئے دفتر اس کی تصدیق ہو۔ بہرحال فکر میں ہوں۔ اگر اسباب نے مساعدت کی فہو المراد ورنہ ؎آنچہ ما درکار داریم اکثرے درکار نیست۔ منشی صاحب اس خط کو ضروری جان کر بیرنگ بھیجتا ہوں۔ نجات کا طالب۔ غالبؔ۔ ۳۰ جولائی سنہ ۱۸۶۵ء۔
ایضاً
منشی صاحب شفیق بدل مہربان عزیز از جان سیف الحق میاں داد خاں کو فقیر غالب علی شاہ کی دعا پہنچے۔ پرسوں نواب صاحب کا خط اور کل تمہارا خط آیا۔ صاحب ٹوپیوں کی حقیقت یہ ہے کہ تم نے لطائف غیبی کی ۱۵ جلدیں سات روپے آٹھ آنے دام بھیج کر منگوائیں پھر دو روپے کے ٹکٹ بھیج کر ٹوپیاں منگوائیں۔ میں نے تمہارے بھیجے ہوئے روپیوں کی ٹوپیاں خرید کر تم کو بھیج دیں۔ چاہو تم پہنو چاہو چھوٹے صاحب کی نذر کرو۔ یہ جو میں نے سیف الحق خطاب دیا ہے اپنی فوج کا سپہ سالار مقرر کیا ہے۔ تم میرے ہاتھ ہو تم میرے بازو ہو میرے نطق کی تلوار تمہارے ہاتھ سے چلتی رہے گی۔
لطائف غیبینے اعدا کی دھجیاں اڑا دیں۔ ایک نئی بات سنو۔ محمد مرزا خاں میرے سببی بھائی کا نواسہ ہے اس نے ایک اخبار نکالا ہے مسمیٰ بہ اشرف الاخبار اس کا ایک لفافہ تم کو بھیجتا ہوں۔ اس کو پڑھ کر معلوم کر لو گے کہ تمہارا ایک اعتراض قتیل کے کلام پر چھاپا گیا ہے۔ اس ارسال و اعلان سے صرف اطلاع منظور ہے ہاں ایک بات یہ بھی ہے کہ چھوٹے صاحب کی نظر بھی ادھر سے گزر جائے۔ اور اس سرکار میں یہ اخبار خرید کیا جائے اور تم ان کی طرف سے حکمِ خریداری ابتدا جنوری۱۸۶۷ ء سے بنامِ محمد مرزا خاں لکھو۔ اور وہ خط اس پتہ سے دلّی کو روانہ کر و جو ان کی اخبار آخر میں لکھا ہے۔ حیران ہوں کہ چھوٹے صاحب کے خط کا کیا جواب لکھوں۔ انہوں نے مجھے شرمندہ کیا اپنے کو چھوٹا اور مجھ کو بزرگ لکھا۔ سید تو سب مسلمانوں کے بزرگ ہوتے ہیں ، میں تو مسلمانوں میں بھی ایک ذلیل، علیل، فقیر، حقیر آدمی ہوں۔ یہ ان کی بزرگی، ان کی خوبی، ان کی مہربانی ہے۔ حق تعالیٰ ان کو سلامت رکھے۔ اور ان مقدمات میں مِن کُلِّ الوُجوُہ ان کو فتح و ظفر نصیب ہو میرا سلام کہنا اور یہ عبارت پڑھا دینا۔ ہاں صاحب برادر بجاں برابر میرزا معین الدین حسین خاں بہادر کو میرا سلام کہنا۔ اور کہنا بھائی میرا جی دیکھنے کو بہت چاہتا ہے۔ پہلے برخوردار شہاب الدین خان سے صلاح پوچھو وہ اجازت دے تو فوراً ریل پیل کرتے چلے آؤ۔ دیدار کا طالب۔ غالبؔ۔ سہ شنبہ ۷ شوال سنہ ۱۲۸۳ مطابق ۱۲ فروری ۱۸۶۷ ء
ایضاً
صاحب کل آپ کا خط آیا، میرا دھیان لگا ہوا تھا کہ آیا میاں سیاح کہاں ہیں اور مجھ کو کیوں بھول گئے ہیں۔ پہلا خط تمہارا جس کا حوالہ اس خط میں دیتے ہو میں نے نہیں پایا۔ ورنہ کیا امکان تھا کہ جواب نہ لکھتا۔ جناب منشی میر امیر علی صاحب سے مجھ سے ملاقات نہیں لیکن ان کے محامد و مکارم سنتا ہوں۔ جناب مولوی اظہار حسین صاحب سے البتہ اسی شہر میں دو ملاقاتیں ہوئی لیکن میں نے ان کو فقیر دوست اور درویش نواز نہ پایا۔ اغنیا کے واسطے اچھے ہیں۔ ہائے مولوی محمد حسن اور مولوی عبدالکریم اس عہد میں اگر ان بزرگوں میں سے ایک ہوتا تو میں کیوں اپنی قسمت کو روتا۔ وقت گزر جاتا ہے۔ بات رہ جاتی ہے۔ ہاں خاں صاحب آپ جو کلکتہ پہنچے ہو اور سب صاحبوں سے ملے ہو تو مولوی فضل حق کا حال اچھی طرح دریافت کر کے مجھ کو لکھو کہ اس نے رہائی کیوں نہ پائی۔ وہاں جزیرہ میں اس کا کیا حال ہے گزارہ کس طرح ہوتا ہے۔ غالب۔ جمعہ ۴ اکتوبر سنہ ۱۸۶۱ء۔
ایضاً
آئیے بیٹھئے مولانا سیاح۔ سلام علیکم۔ مزاج مبارک۔ سُورت کا پہنچنا بہر صورت مبارک ہو۔ بھائی میرا دل بہت خوش ہوا کہ تم اپنے وطن پہنچے۔ لیکن تم کو چین کہاں۔ خدا جانے کئی ہفتہ یا کئی مہینے ٹھہرو گے اور پھر سیاحت کو نکلو گے۔ جی میں کہو گے آؤ اب دکن کی سیر کریں۔ حیدر آبا د، اور نگ آباد۔ دونوں شہر اچھے ہیں۔ ان کو دیکھیں۔ میرزا معین الدین خان اور میرزا محمد حسین خان یہ دونوں بیٹے ہیں نواب قدرت اللہ بیگ خان کے اور قدرت اللہ بیگ خاں ابن عم تھے نواب احمد بخش خاں کے اور معین الدین حسن خاں کی بہن منسوب ہے بھائی ضیاء الدین خاں سے۔ یہاں کوئی امر نیا واقع نہیں ہوا۔ وہی حالات و اطوار ہیں جو دیکھ گئے ہو۔ مسجد جامع کے باب میں کچھ پُرسشیں لاہور سے آئی تھیں۔ یہاں سے ان کے جواب گئے ہیں یقین ہے کہ واگذار کا حکم آئے اور وہ مسلمانوں کو مل جائے۔ ہنوز بدستور پہرا بیٹھا ہوا ہے اور کوئی جانے نہیں پاتا۔ والسلام مع الاکرام۔ صبح سہ شنبہ ۲ ذیقعدہ و مئی معاً۔ غالبؔ
ایضاً
نور چشم، اقبال نشان سیف الحق میاں داد خاں سیاح کو غالبِ نیم جان کی دعا پہنچے۔ واقعی تمہارے دو خط آئے ہیں۔ آگے میں لیٹے لیٹے کچھ لکھتا تھا۔ اب وہ بھی نہیں ہو سکتا۔ ہاتھ میں رعشہ، آنکھوں میں ضعفِ بصر۔ کوئی متصدی میرا نوکر نہیں دوست آشنا کوئی آ جاتا ہے تواس سے جواب لکھوا دیتا ہوں۔ بھائی میں تو اب کوئی دن کا مہماں ہوں اور اخبار والے میرا حال کیا جانیں۔ ہاں اکمل الاخبار اور اشرف الاخبار والے کہ یہ یہاں کے رہنے والے ہیں اور مجھ سے ملتے رہتے ہیں سو ان کے اخبار میں میں نے اپنا حال مفصل چھپوا دیا ہے اور اس میں میں نے عذر چاہا خطوں کے جواب سے اور اشعار کی اصلاح سے۔ اس پر کسی نے عمل نہ کیا۔ اب تک ہر طرف سے خطوں کے جواب کا تقاضا اور اشعار واسطے ا صلاحوں کے چلے آتے ہیں۔ اور میں شرمندہ ہوتا ہوں۔ بوڑھا، اپاہج، پورا بہرا، آدھا اندھا، دن رات پڑا رہتا ہوں۔ حاجتی پلنگ کے تلے دھری رہتی ہے۔ طشت چوکی پلنگ کے پاس لگا رہتا ہے سو طشت چوکی پر تیسرے چوتھے دن اتفاق جانے کا ہوتا ہے اور حاجتی کی حاجت بسسب سُرعت بول کے گھنٹہ بھر میں پانچ چھ بار ہوتی ہے۔ تصویر کھینچنے والا جو ہندوستانی ایک دوست تھا وہ شہر سے چلا گیا ایک انگریز ہے وہ کھینچتا ہے مجھ میں اتنا دم کہاں کہ کوٹھے پر سے اتروں پالکی میں بیٹھوں اور اس کے گھر جاؤں اور گھنٹہ دو گھنٹہ کرسی پر بیٹھوں اور تصویر کھچوا(کھنچوا)کر جیتا جاگتا اپنے گھر پھر آؤں۔ اب تم از راہِ مہربانی میر ابراہیم علی خاں بہادر اور حکیم سید احمد حسن صاحب کو اور جب بمبئی سے آ جائیں تو نواب غلام بابا خان کو یہ خط پڑھوا دینا۔ تمہارے ہاں لڑکے کا پیدا ہونا اور اس کا مر جانا معلوم ہو کر مجھ کو بڑا غم ہوا۔ بھائی اس داغ کی حقیقت مجھ سے پوچھو۔ کہ ۷۴ برس کی عمر میں سات بچے پیدا ہوئے۔ لڑکے بھی اور لڑکیاں بھی اور کسی کی عمر پندرہ مہینے سے زیادہ نہ ہوئی۔ تم ابھی جوان ہو حق تعالیٰ تمہیں صبر اور نعم البدل دے۔ والسلام۔ ۲۵ اگست۱۸۶۷ ء۔ غالب
ایضاً
 
  • Like
Reactions: HorrorReturns

Zia_Hayderi

TM Star
Mar 30, 2007
2,468
1,028
1,213

5-
خانصاحب سعادت و اقبال نشان میاں داد خاں سیاح کو فقیر گوشہ نشین کا سلام پہنچے۔ تمہارا کوئی خط سوائے اس خط کے جس کا میں جواب لکھتا ہوں ہر گز نہیں پہنچا بہت دن سے مجھ کو خیال تھا کہ مولانا سیاح نے مجھ کو یاد نہیں کیا۔ کل ناگاہ تمہارا خط پہنچا۔ آج اس کا جواب لکھتا ہوں۔ مہر میں تو کھودنے کا نہیں جوا س قدر عذر چاہتے ہو کھدوا دینے میں کیا تکلیف اور کیا زحمت میں احباب کا خادم ہوں۔ میر غلام بابا خاں صاحب سے میرا سلام کہیئے اور وہ نگین معہ نقشہ بے تکلف بھیج دیجئے آپ کے حکم کی تعمیل اور اس نگین کی درستی ہو جائے گی۔ خاطر عاطر جمع ہے زیادہ کیا لکھوں اجی سیاح صاحب ہمارا دھیان تم میں لگا رہتا ہے کبھی کبھی خط لکھتے رہا کرو۔ میں ایسا گمان کرتا ہوں کہ اگر میر غلام بابا خاں صاحب کو مُہر کھدوانی نہ ہوتی اور وہ تم سے نہ کہتے تو تم ہرگز مجھ کو خط نہ لکھتے۔ یہ تمہارا خط گویا میر غلام بابا خاں کے حسب الحکم تھا۔ جی میں آیا تھا کہ انہیں کو اس کا جواب لکھوں۔ اور ان کے نام کا خط بھیجوں مگر پھر سوچا کہ تم آزردہ ہو جاؤ گے تمہیں کو خط لکھا۔ بھائی یہ طریقہ فراموش کاری کا اچھا نہیں گاہ گاہ خط لکھا کرو۔
والسلام۔ نجات کا طالب۔ غالب۔ سہ شنبہ یکم مارچ ۱۸۶۶ء۔
ایضاً
)


منشی صاحب یہ کیا اتفاق ہے کہ میری بات کوئی نہیں سمجھتا ؎
کس زباں را نمی فہمد
بہ عزیزاں چہ التماس کنم
یا د کرو اصل مقدمہ یہ تھا کہ میں قاطع برہان کو دوبارہ چھپوایا چاہتا ہوں نواب صاحب مدد دیں یعنی سو دو سو جلدیں خرید لیں۔ حضرت نے ایک گھڑی عنایت فرمائی بھلا یہ میرے کس کام کی۔ چار دن سونچا(سوچا) کیا کہ پھیر دوں پھر سونچا کہ برا مانیں گے۔ آخر کو گھڑی رکھ لی۔ اور یہ خیال کیا کہ کتاب کے انطباع کے بعد سو ڈیڑھ سو جلدیں بھیج دوں گا۔ اسی خط کے ساتھ نواب صاحب کے نام کا خط گھڑی کی رسید کا پہنچتا ہے اور یہ بھی تم کو معلوم رہے کہ گھڑی کی کُنجی نہیں آئی۔ ظاہراً سہو سے وہیں رہ گئی ہو گی۔ ہاں صاحب تیس جلدیں لطائف غیبی کی دو پارسلوں میں آگے بھیجی ہیں جس کی قیمت دس (۱۰) روپے مجھ کو پہنچے فی الحال ایک جلد اور اپنی طرف سے بھیجی ہے رسید جلد لکھو۔ غالب۔ ۳ دسمبر ۱۸۶۴ء۔
ایضاً
سعادت و اقبال نشان سیف الحق منشی میاں داد خاں سیاح کو فقیر غالب کی دعا پہنچے۔ خط میں آپ نے بہت سے مطالب تھے مگر تیس (۳۰)کتابوں کی دو پارسلوں کی رسید نہیں لکھی یہ ایک پارسل جو بعد دو پارسلوں کے بھیجا گیا ہے اس میں وہی لطائفِ غیبی ہے جس کو میں نے اپنے مطالعہ میں رکھ کر صحیح کیا ہے اس کے بھیجنے سے یہ مدعا ہے کہ تم ان تیس رسالوں کو اس کے مطابق صحیح کر لو اگر چھوٹے صاحب نے رکھ لیا ہے تو ان سے مستعار لے کر اپنی سب کتابیں صحیح کر لو اور وہ نسخہ ان کی نذر کر دو۔ صاحب میں نے اپنے صرفِ زر سے لطائف غیبی کی جلدیں نہیں چھپوائیں مالک مطبع نے اپنی بکری کو چھاپیں۔ بیس (۲۰) میں نے مول لے لیں۔ تیس تم کو دلوا دیں۔ بیس بھائی ضیاء الدین نے لیں ، دس مصطفے خاں صاحب نے لیں باقی کا حال مجھے معلوم نہیں۔ دیکھو سیف الحق شیخ سعدی کا قول کیا سچا ہے ؎
اگر دنیا نباشد درد مندم
وگر باشد بمہرش پائے بندم
بلائے زیں جہاں آشوب تر نیست
کہ رنجِ خاطر است ار ہست و رنیست
جہاں دولت نہیں وہاں مصیبت ہے۔ جہاں دولت ہے وہاں خصومت ہے میں تو میر غلام بابا خاں کا دوست ہوں ان کی فتح کی دعا مانگتا ہوں آپ اتنی مہربانی کریں کہ یہ حالات جو واقع ہوا کریں وہ مجھ کو لکھا کریں غربیلہ کی ہندی نخرہ ہے فارسی میں غربیلہ بولتے ہیں۔ نجات کا طالب غالبؔ۔ پنجم شعبان۱۲۸۱ ہجری۔
ایضاً
بھائی سیف الحق تمہارا خط پہنچا۔ قاضی صاحب بڑودہ کو معاف رکھو اگر کوئی وجہ اپنے پر ان کے عتاب کی پاتا تو ان سے عذر کرتا اور اپنا گناہ معاف کرواتا۔ جب سبب ملال کا ظاہر نہیں تو میں کیا کروں تم برا نہ مانو کس واسطے اگر میں برا ہوں تو اس نے سچ کہا اور اگر میں اچھا ہوں اور اس نے برا کہا تو اس کو خدا کے حوالے کر دو۔ ؎
غالب برا نہ مان جو دشمن برا کہیں
ایسا بھی کوئی ہے کہ سب اچھا کہیں جسے
صاحب اس بڑھاپے میں تصویر کے پردے میں کھچا کھچا پھروں۔ گوشہ نشین آدمی عکس کی تصویر اتار نے والے کو کہاں ڈھونڈوں ؟ دیکھو ایک جگہ میرے تصویر بادشاہ کے دربار میں کھچی ہوئی ہے اگر ہاتھ آ جاوے گی تو وہ ورق بھیج دوں گا۔ اجی وہ تو میں نے نواب صاحب کو ہنسی سے ایک بات لکھی تھی۔ دوستانہ اختلاط تھا کہ بھئی میں بہرا ہوں گانا کیا سنوں گا۔ بوڑھا ہوں ناچ کیا دیکھوں گا۔ غذا چھ ماشہ آٹا کا کھانا کیا کھاؤں۔ بمبئی، سورت میں انگریزی شرابیں ہوتی ہیں اگر وہاں آتا اور شریک محفل ہوتا تو پی لیتا۔ نجات کا طالب غالب۔ ۵ ستمبر ۱۸۶۶ء
ایضاً
صاحب تمہارے خط کے پہنچنے سے کمال خوشی ہوئی ٹوپیاں اگرچہ تمہارے سر پر ٹھیک نہ آئیں لیکن ضائع نہ گئیں میرے شفیق اور تمہارے مربی کے صرف میں آئیں۔ تم کو اور ٹوپیاں بھیجوں گا۔ مصور سے سخت عاجز ہوں وعدہ ہی وعدہ ہے وفا کا نام نہیں۔ کلیات میر تقی کا انتخاب تمہارے خط کے پہنچنے سے دو دن پہلے میر فخر الدین نے ارسال کر دیا۔ ٹکٹ ان کے حوالے کر دئیے۔ حضر ت بہتان لگانے کی خو کس سے سیکھے ہو۔ میرے پاس کوئی غزل تمہاری نہیں ہے نواب صاحب کو سلام کہنا اور میری زبانی کہنا کہ ٹوپیوں کو میرا ارمغاں سمجھنا۔ سیف الحق کی نذر تصور نہ کرنا۔ نجات کا طالب غالب۔ ۲۵ جنوری ۱۸۶۷ء
ایضاً
اقبال نشان سیف الحق کو دعا پہنچے۔ پانچ اشتہار اخبار کی خریداری کے اور تین اشتہار کتاب کی خریداری کے آپ کے پاس پہنچتے ہیں۔ چھوٹے صاحب کو ملاحظہ کروائیے اور اطراف و جوانب دور و نزدیک بھیجئے۔ جو صاحب کتاب اور اخبار دونوں کے خریدار ہوں وہ دونوں کی خریداری کی اطلاع کا خط میر فخر الدین مہتمم اکمل المطابع کے نام لکھیں اور وہ خط میرے پاس بھیج دیں جو صاحب فقط اخبار کے خریدار ہوں وہ اس کے خریدنے کی اطلاع کا خط۔ جو صاحب فقط کتاب کے خریدار ہوں وہ اس کی اطلاع کا خط لکھیں۔ غالب۔ ۲۲ مارچ ۱۸۶۶ ء۔
ایضاً
مولانا سیف الحق اب تو کوئی خط تمہارا نوٹ اور ہنڈوی اور ٹکٹ سے خالی نہیں ہوتا بھلا یہ تو فرمائیے کہ یہ ڈھائی روپے کس بابت اور کس جنس کی قیمت کے ہیں۔ اگلے پانچ روپے پر میں بے فرا ہوا تھا یہ ڈھائی اور طُرّہ ہوئے۔ بہرحال ان کا حال لکھو کہ کیسے ہیں اور کاہے کے ہیں اس رقعہ کا جواب جلد لکھو۔ ٹوپیاں بعد عید بھیجی جائیں گی۔ عنایت کا طالب غالب ۲۳ اپریل۱۸۶۶ء۔
ایضاً
منشی صاحب سعادت و اقبال نشان سیف الحق میاں داد خاں کو فقیر اسد اللہ کا سلام۔ کل شنبہ ۲۰ فروری صبح کے وقت چھ پارسل ۳۶ درفشِ کاویانی کے نواب میر غلام بابا خاں صاحب کی خدمت میں ارسال کئے کل ہی شام کے وقت آپ کا عنایت نامہ پہنچا حال معلوم ہوا۔ خیر اب اور نہ بھیجوں گا۔ صاحب یہ تم نے پانچ روپے کے ٹکٹ کیوں بھیجے۔ میں نہ کتاب فروش نہ دلال۔ یہ حرکت مجھے پسند نہ آئی اور تم نے بہت برا کیا۔ حضرت ۱۶ جلدیں لطائف غیبی کی بھیج کر اس کے پان (پانچ)سات دن کے بعد بیس نامہ غالب کا پارسل ارسال کیا ہے لطائف کی رسید تم نے بھیج دی۔ یقین ہے کہ نامہ غالب کا پارسل بھی پہنچ جائے گا۔ گھبراؤ نہیں نواب صاحب کی خدمت میں میرا سلام اور اشتیاقِ ملاقات عرض کرنا۔ نجات کا طالب غالب ۲۱ فروری ۱۸۶۶ء۔
ایضاً
منشی صاحب وہی جہان وہی زمین وہی آسمان وہی سورت بمبئی وہی دلی وہی نواب میر غلام بابا خان وہی سیف الحق سیاح وہی غالب نیم جان۔ انگریزی ڈاک جاری۔ ہرکاروں کو ریل کی سواری۔ ربیع الاول میں تمہارا خط آیا ربیع الثانی جمادی الاول جمادی الثانی رجب آج شعبان کی ۲۶ ہے صبح کے وقت یہ خط لکھ رہا ہوں۔ ۸ بج گئے ہیں اس وقت تک نہ کوئی تمہارا خط آیا نہ کوئی نواب صاحب کا عنایت نامہ۔ واسطے خدا کے میرے اس خط کا جواب جلد لکھو۔ اور اس خط میں ترک نامہ و پیام کا سبب لکھو۔ آج ہی کے دن ایک پارسل چھ ٹوپیوں کا ارسال کرتا ہوں۔ خدا کرے پارسل پہنچ جائے اور ٹوپیاں تمہارے پسند آئیں۔ نواب صاحب کی خدمت میں میرا سلام پہنچا نا اور عتاب کی وجہ دریافت کر کے لکھنا۔ نجات کا طالب غالب ۳ جنوری۱۸۶۷۔ خط بیرنگ ہے اور پارسل پیڈ
ایضاً
برخوردار تمہارا خط پہنچا۔ لکھنؤ کا کیا کہنا ہے وہ ہندوستان کا بغداد تھا۔ اللہ اللہ وہ سرکار امیر گر تھی جو بے سر و پا وہاں پہنچا امیر بن گیا۔ اس باغ کی یہ فصلِ خزاں ہے میں بہت خوشی سے تم کو اطلاع دیتا ہوں کہ اردو کا دیوان غاصب نا انصاف سے ہاتھ آ گیا اور میں نے نور چشم منشی شیو نراین کو بھیج دیا یقین کلی ہے کہ وہ چھاپیں گے جہاں تم ہو گے ایک نسخہ تم کو پہنچ جائے گا۔ طریقہ سعادت مندی یہ ہے کہ ہم کو اپنی خیر و عافیت کا طالب جان کر جہاں جاؤ وہاں سے خط لکھتے رہو اور اپنے مسکن کا پتہ ہم پر ظاہر کرتے رہو ہم تم سے راضی ہیں اور چونکہ تمہاری خدمت اچھی طرح نہیں کی شرمندہ بھی ہیں۔ راقم اسد اللہ خاں۔ مرقومہ شنبہ روز عید مطابق ۳۰ جون ۱۸۶۰ء
ایضاً
منشی صاحب سعادت و اقبال نشان سیف الحق میاں داد خاں تم سلامت رہو۔ تمہارے خط کے صفحہ سادے پر یہ سطریں رقم کرتا ہوں تاکہ تم اپنے خط کے پہنچنے پر اطلاع پاؤ۔ نامہ غالب صاحبِ مطبع نے اپنی بِکری کے واسطے نہیں چھاپے جو میں مول لے کر بھیجوں اور تم سے اس کی قیمت مانگ لوں۔ میں نے آپ سے تین سو جلد چھپوائی۔ دوستوں کو دور و نزدیک بانٹ دی۔ آج یکشنبہ ہے پارسل روانہ نہ ہو گا جتنے یہ نسخے اب میرے پاس باقی ہیں کل تمہیں بھیج دوں گا۔ ہاں صاحب سو روپے کا نوٹ پہنچا۔ اور روپیہ وصول ہوا کاپی آج شروع ہو گئی۔ جس دن نوٹ پہنچا اس کے دوسرے دن روپیہ مل گیا۔ تیسرے دن میں نے تم کو تمہارے رجسٹری دار خط کا جواب لکھ بھیجا۔ یقین ہے کہ میرا خط پہنچ گیا ہو گا اور تم نے بموجب میری خواہش کے نواب صاحب کو دکھا دیا ہو گا۔ کل حضرت کا بھی خط آیا ہے اس کا جواب آج تمہارے خط کے ساتھ ارسال ہوتا ہے بندہ پرور سچ کہتے ہو رحیم بیگ کا وطن اصلی سرہنہ اور فی الحال میرٹھ میں مقیم اور معلمی اس کا پیشہ ہے اور آٹھ دس برس سے اندھا۔ نظم و نثر میں مولوی امام بخش صہبائی کا شاگرد اور فارسی شعر کہتا ہے۔ راقم غالب علی شاہ۔ یکشنبہ ۱۷ ستمبر ۱۸۶۵ عیسوے۔
ایضاً
صاحب آج تمہارے کئی خطوں کا جواب لکھتا ہوں۔ مولوی کرامت علی صاحب میرے شفیق ہیں جس زمانہ میں وہ دلی آئے تھے میری ان کی ملاقاتیں ہوئی تھیں وہ میرے دوست شاگرد نہیں اور ہر گز قصیدہ انہوں نے نہیں لکھا۔ آغا عبدالرزاق شیرازی نے گویا میری خستگی اور تہمت زدگی کا انتقام لیا بہرحال میں تمہارا احسان مند ہوں۔ اگر تم وہاں نہ ہوتے تو میری اور میر منشی کی صفائی نہ ہوتی ان دنوں ضعف ِ دماغ دوراں سر میں ایسا مبتلا ہوں کہ والی رامپور کا بھی بہت سا کلام یوں ہی دھرا ہوا ہے دیکھنے کی بھی نوبت نہیں آئی تمہاری بھیجی ہوئی غزلیں سب محفوظ دھری ہوئی ہیں خاطر جمع رکھو جب نواب صاحب کی غزلیں دیکھوں گا تو یہ بھی دیکھی جائیں گی جب حال یہ ہو کہ اصلاح نہ دے سکوں تو فکر تاریخ کیا کروں۔ اگر میرا حال درست ہوتا تو جناب مولوی عبد الغفور خاں صاحب نسّاخکے دیوان کی تاریخ ضرور لکھتا اور اس خدمت گزاری کو اپنی سعادت سمجھتا آپ جناب مولوی صاحب سے میرا سلام کہیں اور یہ میرا رقعہ ان کو دکھا دیں۔ نجات کا طالب غالب۔ چہار شنبہ ۲۰ نومبر ۱۸۶۱ء
ایضاً
 

Zia_Hayderi

TM Star
Mar 30, 2007
2,468
1,028
1,213

6-
جناب منشی صاحب آپ کا خط مُہری نواب لفٹنٹ گورنر آگرہ کہ وہ میرا بھیجا ہوا تھا پہنچا اس کے بھیجنے کی کچھ ضرورت نہ تھی۔ جب گورنمنٹ اعلیٰ نے مجھ کو خط لکھنا موقوف کیا تو لفٹنٹ گورنروں کے اگلے زمانہ کے خطوط سے کیا میرا دل خوش ہو گا۔ ایسے ایسے پچاس ساٹھ خط میرے پاس موجو د ہیں مجھ کو تو چھ آنے کے پیسوں کا افسوس ہے جو تم نے بابت محصول دئیے۔ راقم اسد اللہ ۔ مرقوم ۱۰ فروری ۱۸۶۲عیسوی۔
ایضاً
صاحب میرا سلام تمہارا خط پہنچا دونوں غزلیں دیکھیں خوش ہوا فقیر کا شیوہ خوشامد نہیں اور فنِ شعر میں اگر اس شیوہ کی رعایت کی جاوے تو شاگرد ناقص رہ جاتا ہے۔ یاد کرو کبھی کوئی غزل تمہاری اس طرح کی نہیں ہوئی کہ جس میں اصلاح نہ ہوئی ہو خصوصاً روز مرہ اردو میں دونوں غزلیں لفظاً اور معنیً بے عیب ہیں کہیں اصلاح کی حاجت نہیں۔ آفرین صد آفرین۔ میر غلام بابا خاں صاحب واقعی ایسے ہی ہیں جیسا تم لکھتے ہو۔ سیاحت میں دس ہزار آدمی تمہاری نظر سے گزرا ہو گا اس گروہِ کثیر میں جو تم ایک شخص کے مداح ہو تو بے شک وہ شخص ہزاروں میں ایک ہے لاریب فیہ۔ کیا فرمائش کروں اور تم سے کیا منگاؤں وہاں کون سی چیز ہے کہ یہاں نہیں۔ آم مجکو(مجھ کو) بہت مرغوب ہیں انگور سے کم عزیز نہیں لیکن بمبئی اور سُورت سے یہاں پہنچنے کی کیا صورت؟ مالدہ کا آم یہاں پیوندی اور ولایتی کر کے مشہور ہے اچھا ہوتا ہے کمال یہ کہ وہاں بہت اچھا ہو گا سورت سے دلّی آم بھیجنے ٭ (شاید یہاں کاتب کی غلطی کی وجہ سے “بھیجنا” کی بجائے “بھیجنے ” لکھا گیا:۔ چھوٹا غالب ) محض تکلف ہے۔ روپیہ کے آم اور چار روپیہ محصول ڈاک اور پھر سو میں سے شاید دس پہنچیں میرے سر کی قسم کبھی ایسا ارادہ نہ کرنا یہاں دیسی آم انواع و اقسام کے بہت پاکیزہ اور لذیذ اور خوشبو افراط سے ہیں۔ پیوندی آم بھی بہت ہیں۔ رامپور سے نواب صاحب اپنے باغ کے آموں میں سے اکثر بسبیلِ ارمغاں بھیجتے رہتے ہیں۔ اے لو آج بریلی سے ایک بھنگی ایک دوست کی بھیجی ہوئی آئی۔ د و ٹوکرے۔ ہر ٹوکرے میں سو (۱۰۰)آم۔ کلو داروغہ نے میرے سامنے وہ ٹوکرے کھولے۔ دو سو (۲۰۰) میں سے تراسی(۸۳) آم اچھے نکلے اور ایک سو سترہ (۱۱۷) آم بالکل سڑے ہوئے۔ اوائل جون ماہِ حال میں ایک ہفتہ مینھ (مینہ۔ بارش) برس کر پھر اب وہی آگ برس رہی ہے اور لُو چل رہی ہے۔ سہ شنبہ ۱۷ جون ۱۸۶۶ء۔
ایضاً
صاحب میں تم سے شرمندہ۔ پہلا خط تمہارا مع قصیدہ پہنچا میں قصیدہ کسی کتاب میں رکھ کر بھول گیا اب دوسرا خط دیکھ کر قصیدہ یاد آیا۔ ہر چند ڈھونڈا نہ پایا بڑی بات یہ ہے کہ اس قدر مجکو(مجھ کو)یاد ہے کہ اسی وقت میں نے ان اشعار کو سراسر دیکھ لیا تھا اشعار سب ہموار تھے تم اندیشہ نہ کرو اور قصیدہ نذر گزرانو اور مع الخیر وطن کو جاؤ لیکن بھائی وطن پہنچ کر ضرور مجکو (مجھ کو)خط لکھنا اور اپنے گھر کا پتہ لکھنا تاکہ میں اس نشان سے تم کو خط بھیجوں۔ نواب میر غلام بابا خاں صاحب کو فقیر کی طرف سے سلام کہنا۔ فقط۔ سہ شنبہ ۱۸ نومبر ۱۸۶۶ء۔
ایضاً
منشی صاحب سعادت نشان و اقبال نشان۔ شکوہ تمہارا میرے سر اور آنکھوں پر مگر کوئی خط تمہارا جواب طلب نہ تھا۔ اشعار کی اصلاح سے میں نے ہاتھ اٹھایا، کیا کروں ایک برس سے عوارضِ فسادِ خون میں مبتلا ہوں بدن پھوڑوں کی کثرت سے سرو چراغاں ہو گیا۔ طاقت نے جواب دے دیا۔ دن رات لیٹا رہتا ہوں۔ کھانا کھاتے وقت پلنگ پر سے اتر بیٹھتا ہوں۔ کھانا کھا کر ہاتھ دھو کر پھر پڑ رہتا ہوں۔ حاجتی پلنگ کے پاس رہتی ہے۔ اتر کر پیشاب کیا جاتا ہے۔ بیت الخلا جانا ایک مصیبت ہے۔ طشت چوکی سہی مگر کئی قدم جانا پھر آنا کیا ایسا آسان ہے۔ ایک کم ستر برس کی عمر ہوئی۔ اب نجات چاہتا ہوں۔ بہت جیا۔ کہاں تک جیوں گا (اب تم دوسرے صفحہ کو پڑھو) جناب سید غلام بابا خاں صاحب کی خدمت میں میرا سلام کہنا اور ولادتِ فرزند کی مبارکباد دینا اور یہ قطعہ تاریخ نذر کرنا۔
قطعہ
میر بابا یافت فرزندے کہ ماہِ چاردہ
بر فرازِ لوح گردوں گروہ تمثال اوست
فرخی بینی و یابی بہرہ از ناز و طرب
از سر ناز و طرب فرزندِ فرخ سال اوست
۱۲۸۰ ھ کے نون کے پچاس اور طرب کی ط کے نو فرزند فرخ فا ل پر بڑھانے ہوں گے۔ غالب۔ روز پنجشنبہ۔ ۱۶ اگست ۱۸۶۳ء۔
ایضاً
منشی صاحب سعادت و اقبال نشان منشی میاں داد خاں سیاح سیف الحق سلمکم اللہ تعالیٰ۔
دعا اور سلام اور شکر اور سپاس۔ تمہارا خط مرقومہ ۳۰ اگست پرسوں بروز جمعہ ۸ ستمبر ۱۸۶۵ ء کو پہنچا کل دسویں ستمبر ماہِ حال کو سو روپے مندرجہ اس کے ایک صراف سے وصول ہو گئے چھوٹے صاحب نے بڑی جوانمردی اور بڑی ہمت کی۔ اس صرف میں میرا کام ہوا اور ان کا نام ہوا۔ اللہ اللہ اب بھی ہندوستان میں ایسے لوگ ہیں کہ زمین نے ان کونہ دیکھا۔ اور نہ انہوں نے مجھے دیکھا نہ میرا کوئی حق ان پر ثابت نہ ان کو کوئی خدمت مجھ سے لینی منظور۔ خیر فقیر ہوں جب تک جیوں گا دعا دوں گا۔ تمام عمر ممنون اور شرمندہ رہو ں گا تمہارا بھی احسان مانوں گا اب دو ایک دن میں کاغذ آ جائے تو اس کا انطباع شروع ہو جائے۔ تم نواب صاحب کو میرا سلام کہو اور یہ خط دکھا دو اور عرض کرو کہ آج تک کسی بھائی یا کسی دوست کا روپے پیسے کا احسان مند نہیں ہوا تھا اب احسان اٹھایا بھی تو اپنے آقا یعنی علی مرتضیٰ رضی اللہ عنہ کے فرزند کا۔ وہ جو ایک اور کتاب کا تم نے ذکر لکھا ہے وہ ایک لڑکے پڑھانے والے ملائے مکتب دار کا خبط ہے۔ رحیم بیگ اس کا نام ہے میرٹھ کا رہنے والا کئی برس سے اندھا ہو گیا ہے باوجود نابینائی کے احمق بھی ہے اس کی تحریر میں نے دیکھی تو تم کو بھی بھیجوں گا مگر ایک بڑے مزے کی بات ہے کہ اس میں بیشتر وہ باتیں ہیں جن کو لطائف غیبی میں رد کر چکے ہو۔ بہرحال اب اسکی٭ (اس کے ) جواب کی فکر نہ کرنا۔ فقط والسلام والاکرام۔ نجات کا طالب غالب۔ دو شنبہ۔ ۱۱ ستمبر ۱۸۶۵ء۔
ایضاً
صاحب میں خدا کا شکر بجا لاتا ہوں کہ تم اپنے وطن گئے اور عزیزانِ وطن کو دیکھ کر خوش ہوئے اور مع الخیر و العافیۃ اپنے محسن و مربی کی خدمت میں پھر آ پہنچے۔ نواب صاحب سے میرا بہت بہت سلام کہنا اور کہنا کہ اس خط میں سلام صرف وفورِ اشتیاق سے لکھا ہے۔ محبت نامہ جداگانہ جلد بھیجوں گا۔ اجی ہاں میاں سیف الحق رامپور سے آ کر تین سو (۳۰۰)جلدیں دُرفشِ کاویانی کی تیار پائیں۔ نواب میر بابا خاں صاحب سے حصہ برادرانہ کو ڈیڑھ سو جلد کا پشتارہ بنایا اس پر ٹاٹ لپٹوایا۔ ڈاک گھر بھجوایا۔ مسترد آیا۔ سرکاری ڈاک والوں نے ہر گز اس کا بھیجنا نہ قبول کیا۔ ٹھیکے والے۔ پم فلٹ پاکٹ والے۔ ریل والے متفق اللفظ اس کے ارسال سے انکار کرتے ہیں۔ تم یہ رقعہ حضرت کو پڑھواؤ۔ اور اس باب میں جو وہ فرمائیں وہ مجھ کو لکھو۔ مدعا یہ ہے کہ کسی طرح یہ پُشتارہ وہاں تک پہنچ جائے۔ اس خط کا جواب جس قدر جلد لکھو گے مجھ پر زیادہ احسان کرو گے۔ نجات کا طالب غالب۔ سہ شنبہ ۲۳ جنوری ۱۸۶۹ ء۔
ایضاً
بھائی تم جیتے رہو۔ اور مراتبِ عُلیا کو پہنچو۔ لو ایک ہنسی کی بات سنو۔ تمہارا خط منشی کنہیا لال کے نام کا میرے پاس آیا۔ ہر چند میں نے خیال کیا اس نام کا کوئی آشنا مجھے یاد نہ آیا۔ یہ نادانی ان کی کہ مجھ سے کہہ نہ دیا کہ میر ے نام کا خط آئے تو میرے پاس بھیج دینا بے خبری میں جو خط آیا۔ میں نہ نام سے واقف نہ مقام سے واقف۔ خط پھیر نہ دوں تو کیا کروں۔ خط کے واپس کرنے کے بعد ایک دن آپ بھائی میرزا محمد حسین خاں کے ساتھ میرے پاس آئے اور تعارف قدیم یا د دلایا۔ دیکھنا یہاں کیا خوب بیان فرماتے ہیں۔ کہ میں غدر سے پہلے دو تین بار تیرے پاس حاضر ہوا ہوں۔ انصاف کرو دو تین ملاقاتیں اور دس گیارہ برس کی بات میں نسیان کا پتلا، میرا قصور کیا۔ بہرحال یہ شریف ہیں اور عمدہ روزگار کئے ہوئے ہیں۔ صاحب میں نے اودھ اخبار میں دیکھا کہ چھوٹے صاحب مقدمہ جیتے اور بمبئی کے صاحبوں میں ان کی افزایش جاہ و جلال و تعظیم و توقیر کمال ہوئی۔ میں تو تہنیت میں خط لکھوں گا مگر رشک آتا ہے کہ بحوالہ اودھ اخبار لکھوں اور بحوالہ سیف الحق نہ لکھوں۔ زیادہ زیادہ۔ اسد اللہ خاں غالب۔ ۳۱ مارچ ۱۸۶۷ء۔
ایضاً
منشی صاحب سعادت و اقبال نشاں عزیز تر از جان سیف الحق میاں خداداد خاں سیاح کو غالب کی دعا پہنچے۔ پرسوں ایک خط تمہارا اور ایک خط چھوٹے صاحب کا پہنچا۔ تمہارے خط میں پچاس پچاس روپے کے دو نوٹ پہنچے۔ سو روپے وصول ہو گئے آج تم کو اطلاع اور نواب صاحب کو شکریہ لکھ کر روانہ کرتا ہوں ، بھائی تم نے اخبار اطراف و جوانب میں میرا حال دیکھا ہو گا۔ میں اب محض نکما ہو گیا۔ خدا جھوٹ نہ بلوائے۔ پچاس جگہ سے اشعار واسطے اصلاح کے آئے ہوئے بکس میں دھرے ہیں از انجملہ تین صاحبوں کے تم کو نام لکھتا ہوں۔ میر ابراہیم علی خاں صاحب۔ میر عالم علی خاں صاحب۔ نواب عباس علی خاں رئیس حال رامپور کے حقیقی ماموں۔ غرضکہ انہیں اوراق میں تمہارے کاغذ بھی دھرے ہوئے ہیں جس دن ذرا افاقہ پاؤں گا۔ تو ان سب کواغذ کو دیکھوں گا۔ ۲۳ اپریل ۱۸۶۷ء۔
ایضاً
منشی صاحب سعادت و اقبال نشاں سیف الحق منشی میاں داد خاں سیاح کو غالب ناتواں نیم جاں کی دعا پہنچے۔ بھائی میرا حال اسی سے جانو کہ اب میں خط نہیں لکھ سکتا۔ آگے لیٹے لیٹے لکھتا تھا اب رعشہ و ضعف بصارت کے سبب سے وہ بھی نہیں ہو سکتا تھا۔ جب حال یہ ہے تو کہو صاحب میں اشعار کو اصلاح کیونکر دوں اور پھر اس موسم میں کہ گرمی سے سر کا بھیجا پگلا جاتا ہے۔ دھوپ کے دیکھنے کی تاب نہیں رات کو صحن میں سوتا ہوں صبح کو دو آدمی ہاتھوں پر لے کر دالان میں لے آتے ہیں ایک کوٹھڑی ہے اندھیری، اس میں ڈال دیتے ہیں تمام دن اس گوشہ تاریک میں پڑا رہتا ہوں شام کو پھر دو آدمی بدستور لے جا کر پلنگ پر صحن میں ڈال دیتے ہیں۔ تمہاری غزلیں ، میر ابراہیم علی خاں بہادر کی غزلیں۔ میر عالم علی خاں کی غزلیں ، حکیم میر احمد حسن صاحب کی غزلیں اور کیا کہوں کس کس کی غزلیں۔ یہ سب ایک جگہ دھری ہوئی ہیں اگر کوئی دن زندگی اور ہے اور یہ گرمی خیر سے گزر گئی تو سب غزلوں کو دیکھوں گا تصویر کا حال یہ ہے کہ ایک مصور صاحب میرے دوست میرے چہرہ کی تصویر اتار کر لے گئے اس کو تین تین مہینے ہوئے آج تک بدن کا نقشہ کھینچنے کو نہیں آئے۔ میں نے گوارا کیا آئینہ پر نقشہ اتروانا بھی۔ ایک دوست اس کام کو کرتے ہیں عید کے دن وہ آئے تھے میں نے ان سے کہا کہ بھائی میری شبیہ کھینچ دو۔ وعدہ کیا تھا کہ کل تو نہیں پرسوں اسباب کھینچنے کا لے کر آؤں گا شوال، ذیقعدہ، ذی الحجہ، محرم یہ پانچواں مہینہ ہے آج تک نہیں آئے۔ آغا غلام حسین خان صاحب کا قطعہ پہنچا۔ اس میں کچھ تو شعر اصلاح طلب بھی تھے۔ اب اصلا ح دے کون۔ میں تو اپنی مصیبت میں گرفتار۔ بارے ایک میرا شاگرد رشید منشی ہر گوپال تفتہ بسواری ریل میرے دیکھنے کو آیا تھا اس کو موقع محل بتا دیا۔ جو میں کہتا گیا اس طرح وہ بناتا گیا وہ قطعہ کا کاغذ بعد اصلاح کے اکمل المطابع میں بھیج دیا۔ ہفتہ آئندہ میں تم بھی دیکھ لو گے۔ مرگ ناگاہ کا طالب غالب۔ ۱۱ جون ۱۸۶۷ ء
(یہاں کتاب میں تاریخ ۱۱ جون ۱۸۸۷ ء لکھی ہوئی ہے۔ کیا زبردست لطیفہ ہے ، جناب غالب کی وفات حسرت آیات فروری ۱۸۶۹ ء کو ہوئی۔ یہ خط غالب نے جون ۱۸۸۷ کو کیا عالم ارواح سے لکھا۔ اگر اسے ہجری سن کے مطابق ۱۲۸۷ مانا جائے تب بھی کوئی مطابقت نہیں کیونکہ ۱۲۸۵ ہجری میں غالب اس دنیا سے جا چکے تھے۔حیرت ہے کہ کتابت کی یہ غلطی پروف ریڈر صاحب کی نظروں میں آن
 
  • Like
Reactions: Asma_tufail
Top