تمہارے بچے کس اسکول میں پڑھتے ہیں؟”

  • Work-from-home

Pariwisha

TM Star
Apr 19, 2013
4,569
3,987
513
“تمہارے بچے کس اسکول میں پڑھتے ہیں؟”۔اس نے اپنے دوست سے سوال کیا۔
“سٹی اسکول میں پڑھتے ہیں۔ بھئی آج کل کے بچے بہت مصروف ہوتے ہیں۔ صبح اسکول، شام میں ٹیوشن اور رات میں ہوم ورک ۔ بے چاروں کو کھیلنے کودنے کے لئے بھی وقت نہیں ملتا”۔دوست نے جواب دیا۔

“یہ سب تو ٹھیک ہے لیکن بچوں کی دینی تعلیم کے لئے تم کیا کرتے ہو؟” اس نے ایک سوال اور داغ دیا۔
“ہاں ایک مولوی صاحب آتے ہیں ۔ وہ بچوں کو روزانہ آدھے گھنٹے سپارہ پڑھاتے ہیں”۔ دوست نے لاپرواہی سے جواب دیا۔

“حیرت ہے۔ دنیا کی تعلیم کے لئے تو پورا دن اور دین کی تعلیم کے لئے صرف آدھا گھنٹا؟
اور دین کی تعلیم بھی کیسی کہ صرف قرآن پڑھنے کا تلفظ درست کروا دیا ، اللہ اللہ خیر سلا۔ نہ بچے کو توحید کا علم اور نہ ہی آخرت کی خبر۔ نہ اسے اچھے اخلاق کی تربیت اور نہ ہی اچھا مسلمان بننے کی ترغیب”۔ اس نے اپنا اعتراض پیش کیا۔

یہ آج ہر گھر کا المیہ ہے۔جب ایک بچے کا سارا وقت دنیا کی تعلیم پر صرف ہوگا تو نتیجہ بھی دنیا پرستی ہی کی صورت ہی میں نکلے گا۔ چنانچہ اس بچہ کی منزل ایک عالیشان مکان، چمچماتی کار، بھاری بنک بیلنس، پرکشش اسٹیٹس اور اعلیٰ میعار زندگی نہیں ہو گی تو کیا ہو گی۔

ایک دنیا داری کی تربیت پانے والے بچے سے یہ تقاضا کرنا فضول ہے کہ اس کے دل میں تقوٰی کی آبیاری ہو، وہ خوف خدا سے لرز اٹھے، وہ رات کو اپنے رب کے حضور رقت کے لمحات گذارے اور دن میں خدا کے بندوں کے حقوق ادا کرے۔اسی طرح اس سے یہ توقع عبث ہے کہ وہ آخرت کو اپنی منزل بنائے، جنت کا حصول اس کا نصب العین ہو اورجہنم سے آزادی اس کا مقصد حیات ہو۔

آج کل دینی تعلیم محض ظاہر کے چند عقائد کو ازبر کرانےاور قرآن کی تجوید سکھانے تک محدود ہوگئی ہے۔ نہ بچوں کو دینی عقائد کا فلسفہ پتا ہوتا ہے اور نہ ہی انہیں قرآن کی تعلیمات کا علم۔ سیکھنے کی یہ عمر چھلکا کھانے تک محدود ہو جاتی ہے اور مغز تک رسائی نہیں ہو پاتی۔

آج اس بات کی ضرورت ہے کہ دینی تعلیم کے لئے ایک آسان نصاب ترتیب دیا جائے جو اتنا آسان ہو کہ ہر گھر کے پڑھے لکھے ماں باپ اپنے بچوں کو پڑھا سکیں۔
اس نصاب میں قرآن کی عربی کے ساتھ ساتھ قرآن کے بیان کردہ قصے ہوں تاکہ بچوں میں دلچسپی پیدا کرنے کے لئے انہیں قرآن کا ترجمہ پڑھنے پر راغب کیا جائے۔
اس کے نصاب میں پیغمبرصلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کی سیرت کے واقعات ہوں جن سے اخلاقیات کی تربیت دی جاسکے۔اس نصاب میں سبق آموز داستانیں ہوں جن سے نصیحت حاصل کی جاسکے۔

غرض یہ نصاب تعلیم اور تربیت پر مبنی مواد کا ایک مرقع ہو جس میں اسلام کے ظاہر کےساتھ ساتھ اس کے باطنی پہلو کو بھی اجاگر کرے۔

اگر ہمیں اپنے بچوں کی دنیا کے ساتھ ساتھ ان کی اور اپنی آخرت کو بھی سنوارنا ہے تو ان کی تربیت انٹرنیٹ اور ٹی وی جیسے بد چلن استادوں کے ہاتھوں کرنے کی بجائے اپنی شفقت بھری نگرانی میں کرنی ہو گی۔ ورنہ بدچلن بچوں کی آخرت کی بربادی ہماری اپنی بربادی ہے۔
 

Abdulwadood

Regular Member
May 16, 2014
77
19
8
“تمہارے بچے کس اسکول میں پڑھتے ہیں؟”۔اس نے اپنے دوست سے سوال کیا۔
“سٹی اسکول میں پڑھتے ہیں۔ بھئی آج کل کے بچے بہت مصروف ہوتے ہیں۔ صبح اسکول، شام میں ٹیوشن اور رات میں ہوم ورک ۔ بے چاروں کو کھیلنے کودنے کے لئے بھی وقت نہیں ملتا”۔دوست نے جواب دیا۔

“یہ سب تو ٹھیک ہے لیکن بچوں کی دینی تعلیم کے لئے تم کیا کرتے ہو؟” اس نے ایک سوال اور داغ دیا۔
“ہاں ایک مولوی صاحب آتے ہیں ۔ وہ بچوں کو روزانہ آدھے گھنٹے سپارہ پڑھاتے ہیں”۔ دوست نے لاپرواہی سے جواب دیا۔

“حیرت ہے۔ دنیا کی تعلیم کے لئے تو پورا دن اور دین کی تعلیم کے لئے صرف آدھا گھنٹا؟
اور دین کی تعلیم بھی کیسی کہ صرف قرآن پڑھنے کا تلفظ درست کروا دیا ، اللہ اللہ خیر سلا۔ نہ بچے کو توحید کا علم اور نہ ہی آخرت کی خبر۔ نہ اسے اچھے اخلاق کی تربیت اور نہ ہی اچھا مسلمان بننے کی ترغیب”۔ اس نے اپنا اعتراض پیش کیا۔

یہ آج ہر گھر کا المیہ ہے۔جب ایک بچے کا سارا وقت دنیا کی تعلیم پر صرف ہوگا تو نتیجہ بھی دنیا پرستی ہی کی صورت ہی میں نکلے گا۔ چنانچہ اس بچہ کی منزل ایک عالیشان مکان، چمچماتی کار، بھاری بنک بیلنس، پرکشش اسٹیٹس اور اعلیٰ میعار زندگی نہیں ہو گی تو کیا ہو گی۔

ایک دنیا داری کی تربیت پانے والے بچے سے یہ تقاضا کرنا فضول ہے کہ اس کے دل میں تقوٰی کی آبیاری ہو، وہ خوف خدا سے لرز اٹھے، وہ رات کو اپنے رب کے حضور رقت کے لمحات گذارے اور دن میں خدا کے بندوں کے حقوق ادا کرے۔اسی طرح اس سے یہ توقع عبث ہے کہ وہ آخرت کو اپنی منزل بنائے، جنت کا حصول اس کا نصب العین ہو اورجہنم سے آزادی اس کا مقصد حیات ہو۔

آج کل دینی تعلیم محض ظاہر کے چند عقائد کو ازبر کرانےاور قرآن کی تجوید سکھانے تک محدود ہوگئی ہے۔ نہ بچوں کو دینی عقائد کا فلسفہ پتا ہوتا ہے اور نہ ہی انہیں قرآن کی تعلیمات کا علم۔ سیکھنے کی یہ عمر چھلکا کھانے تک محدود ہو جاتی ہے اور مغز تک رسائی نہیں ہو پاتی۔

آج اس بات کی ضرورت ہے کہ دینی تعلیم کے لئے ایک آسان نصاب ترتیب دیا جائے جو اتنا آسان ہو کہ ہر گھر کے پڑھے لکھے ماں باپ اپنے بچوں کو پڑھا سکیں۔
اس نصاب میں قرآن کی عربی کے ساتھ ساتھ قرآن کے بیان کردہ قصے ہوں تاکہ بچوں میں دلچسپی پیدا کرنے کے لئے انہیں قرآن کا ترجمہ پڑھنے پر راغب کیا جائے۔
اس کے نصاب میں پیغمبرصلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کی سیرت کے واقعات ہوں جن سے اخلاقیات کی تربیت دی جاسکے۔اس نصاب میں سبق آموز داستانیں ہوں جن سے نصیحت حاصل کی جاسکے۔

غرض یہ نصاب تعلیم اور تربیت پر مبنی مواد کا ایک مرقع ہو جس میں اسلام کے ظاہر کےساتھ ساتھ اس کے باطنی پہلو کو بھی اجاگر کرے۔

اگر ہمیں اپنے بچوں کی دنیا کے ساتھ ساتھ ان کی اور اپنی آخرت کو بھی سنوارنا ہے تو ان کی تربیت انٹرنیٹ اور ٹی وی جیسے بد چلن استادوں کے ہاتھوں کرنے کی بجائے اپنی شفقت بھری نگرانی میں کرنی ہو گی۔ ورنہ بدچلن بچوں کی آخرت کی بربادی ہماری اپنی بربادی ہے۔
Ap deen k baray main janti hain?
 
Top