ہوائی جہاز حادثے کا شکار ہو کر ایک گھنے جنگل میں گر گیا۔ ماہرین وہاں پہنچے تو دیکھا کہ تمام مسافر ہلاک ہو چکے ہیں۔ کوئی بھی زندہ نہیں بچا تھا۔ قریب ہی ایک درخت پر ایک بندر نظر آیا۔ اس کے گلے میں اسی ہوائی کمپنی کا ٹیگ لٹک رہا تھا۔ پتہ چلا کہ یہ بھی اسی بدقسمت جہاز کا مسافر تھا۔
ماہرین نے جھانسہ دے کر بندر کو پکڑ لیا۔ اشاروں کی زبان میں بات کرنے والے ایک ماہر کی خدمات حاصل کی گئیں کہ وہ بندر سے حادثے کی وجہ جان سکیں۔
تفتیشی بورڈ نے اس کے ماہر کے ذریعے کے بندر سے بات چیت کی۔
حادثہ کس وقت پیش آیا؟
اشاروں کی زبان میں بات کرنے والے نے سوال بندر کو سمجھایا۔ بندر نے سوال سمجھ کر اپنی کلائی کی طرف اشارہ کیا، پھر دونوں ہاتھوں اور پاؤں کی انگلیوں کی مدد سے بتایا کہ حادثہ 10 بجے ہوا تھا۔ ساتھ ہی اس نے اپنے دونوں ہاتھ جوڑ کر گال پر رکھے اور سر کو ٹیڑھا کر لیا۔ جس کا مطلب تھا کہ حادثہ رات کو پیش آیا۔
اگلا سوال یہ تھا کہ مسافر اس وقت کیا کر رہے تھے۔
بندر نے پھر دونوں ہاتھ اپنے گال کے ساتھ رکھ کر سر کو ٹیڑھا کیا۔ ماہر نے پھر بتایا، بندر کہہ رہا ہے کہ مسافر سو رہے تھے۔
ائیر ہوسٹسیں کیا کر رہی تھیں۔
بندر نے کہا سو رہی تھیں۔
تفتیش کرنے والوں نے پوچھا پائلٹ کیا کر رہا تھا۔
بندر نے پھر وہی جواب دیا سو رہا تھا۔
تفتیشی ٹیم کے ایک رکن نے سوال کیا "جب سب سو رہے تھے تو تم کیا کر رہے تھے؟
بندر نے دونوں ہاتھوں کو گھماتے ہوئے اشارے سے بتایا "جہاز چلا رہا تھا۔
ماہرین نے جھانسہ دے کر بندر کو پکڑ لیا۔ اشاروں کی زبان میں بات کرنے والے ایک ماہر کی خدمات حاصل کی گئیں کہ وہ بندر سے حادثے کی وجہ جان سکیں۔
تفتیشی بورڈ نے اس کے ماہر کے ذریعے کے بندر سے بات چیت کی۔
حادثہ کس وقت پیش آیا؟
اشاروں کی زبان میں بات کرنے والے نے سوال بندر کو سمجھایا۔ بندر نے سوال سمجھ کر اپنی کلائی کی طرف اشارہ کیا، پھر دونوں ہاتھوں اور پاؤں کی انگلیوں کی مدد سے بتایا کہ حادثہ 10 بجے ہوا تھا۔ ساتھ ہی اس نے اپنے دونوں ہاتھ جوڑ کر گال پر رکھے اور سر کو ٹیڑھا کر لیا۔ جس کا مطلب تھا کہ حادثہ رات کو پیش آیا۔
اگلا سوال یہ تھا کہ مسافر اس وقت کیا کر رہے تھے۔
بندر نے پھر دونوں ہاتھ اپنے گال کے ساتھ رکھ کر سر کو ٹیڑھا کیا۔ ماہر نے پھر بتایا، بندر کہہ رہا ہے کہ مسافر سو رہے تھے۔
ائیر ہوسٹسیں کیا کر رہی تھیں۔
بندر نے کہا سو رہی تھیں۔
تفتیش کرنے والوں نے پوچھا پائلٹ کیا کر رہا تھا۔
بندر نے پھر وہی جواب دیا سو رہا تھا۔
تفتیشی ٹیم کے ایک رکن نے سوال کیا "جب سب سو رہے تھے تو تم کیا کر رہے تھے؟
بندر نے دونوں ہاتھوں کو گھماتے ہوئے اشارے سے بتایا "جہاز چلا رہا تھا۔