منّت

  • Work-from-home

AJMERI11

Active Member
Apr 6, 2011
189
46
178
کہا جاتا ہے کہ ایک شخص خزوروں کا شوکین تھا. دن بھردرختوں پر چڑھکر خزوروں کو توڑنے اور کھانے کی فکر میں رہتا تھا . ایک مرتبہ اسے کافی اونچا اور بڑا درخت دکھا . اس پر کافی بڑے گچھے بھی لگے ہوئے تھے . "اندھے کو کیا چاہئے دو آنکھیں" . اسے من کی مراد مل گیی . آو دیکھا نہ تاؤ ! فورن گلہری کی طرح درخت کی چوٹی پر چڑھ گیا . جی بھر کے کھجوریں کھایی اور پھر گھر کے لئے جما کرنے لگا .مقصد پورا ہوا تو پیڈ سے نیچے اترنے کی ٹھانی . لیکن یہ کیا ؟ جیسے ہی نیچے نظر کی ہوش باختہ ہو گیا. پیشانی پر پسینے کی بوندے نظر آنے لگی ہاتھ پیر تھر تھرانے لگے . اسنے تصوّر بھی نہیں کیا تھا کہ وہ اتنے اونچے پیڈ پر چڑھ چکا ہے. اب کیا کرے؟ وہ آج سے پہلے کبھی اتنے اونچے پیڈ پار نہیں چڑھا تھا . "یا خدا میری حفاظت کر " مجھے خیریت سے نیچے اتار دے . اگر ہاتھ چھوٹ گیا تو میں نیچے گر پڑا تو آج کا دن میری زندگی کا آخری دن ثابت ہوگا . یا الله ! ایسا مت ہونے دینا . مجھے بچا لینا خدا. میں خیریت سے نیچے پہنچ گیا تو پورے پانچ روپے کی نیاز پیش کروں گا یہ میرا وعدہ ہے .اور اس وادے نے اسمیں ہمّت پیدا کی . وہ دھیرے دھیرے نیچے اترنے کی کوشش کرنے لگا . آدھی دوری پار کی تو ہوش قابو میں آے . دل کی دھڑکن میں افاقہ ہوا . پیشانی کا پسینہ خشک ہونے لگا . اب اسنے فر زمین میں نظر ڈالی . کافی نزدیک آ گیی تھی .اسنے اپنے دل میں سوچا میں بھی خانمخان مرے جا رہا تھا . یہ کوئی اتنے زیادہ خطرے کی بات تو تھی نہیں کہ دو روپے کی خزوریں کھا کر پانچ روپے کی نیاز کا وادا کر لیا جاتا . خیر پھر بھی نفع نقصان برابر والی بات پر عمل کر لیتے ہیں.دو روپے ٹھیک رہینگے . اگر خیریت سے نیچے اتر گئے تو دو روپے کی نیاز پیش کر دینگے . یہ وعدہ رہا .اور یہ وعدہ دوری گھٹتے-گھٹتے پوری طرح گھٹ کر زیرو میں تبدیل ہو گیا .زمین پر پیر رکھتے ہی اسنے پیڈ کی طرف دیکھا اور ہنسنے لگا .اسنے کہا پیدوں پر میں نہ جانے کتنی ہی مرتبہ چڑھکر اتر جاؤں . پتا نہیں میں اتنا کیوں ڈر گیا تھا یہ تو خطرے جیسی کوئی بات تھی ہی نہیں .اور پھیر ہاتھ صاف کرتے ہوئے آگے بڑھ گیا . نیاز سے تو وہ بےنیاز ہو ہی چکا تھا .

ایک اور واقیہ تقریبن اسی طرح کا ہے . ایک شخص کو پیسوں کی ضرورت تھی. وہ اپنے کیی دوستوں کے پاس گیا لیکن حاجت پوری نہیں ہوئی . پریشان گھر کی طرف لوٹ رہا تھا . دل ہی دل میں دعا کرتا جا رہا تھا کی یا الله! کہیں سے انتظام کروا دے کسی سے بھی دلوا دے صرف سو روپے کی بات ہے . اگر مل جائے تو پانچ روپے تیرے نام خرچ کروںگا . دکھی دل کی صدا رایگان نہیں جاتی . الله تعلہ نے کرم فرمایا .ایک پتھر سے اسکا پیر ٹکرایا اور وہ اپنے انگوٹھے کو سہلانے کے لئے نیچے جھکا .نظر سامنے پڑے ایک بٹوے پر پڑی اٹھایا.کھولا. دیکھا تو پانچ پانچ اور دس دس کے نوٹ نظر آے .دل بلیوں اچھلنے لگا مایوسی مسرّت میں بدل گیی .ادھر ادھر دیکھا کہیں کوئی دعوے دار نہیں تھا . جھٹ سے بٹوا اٹھایا اور ایک طرف جاکر اپنے کانپتے ہاتھوں اور اخڈتی سانسوں سے نوٹ گننا شروع کیا پورے ٩٥ روپے تھے .خوشی سے جھومنے لگا .آج جو مانگتا مل جاتا .یا الله ! تیرا شکر واقیی تو بڑا مددگار ہے .لیکن اسکے ساتھ ہی ایک بات اور ماننا پڑیگی .اسنے ہنستے ہوئے کہا مولا تو بڑا چالاک بھی ہے .اپنے٥ روپے پہلے ہی کاٹ لئے تونے .
 
Top