ہمسفر چھوٹ گئے راہگزار کے ہمراہ
کوئی منظر نہ چلا دیدہ تر کے ہمراہ
ایسا لگتا ہے کہ پیروں سے لپٹ آئی ہے
ایک زنجیر بھی اسبابِ سفر کے ہمراہ
اتنا مشکل تو نہ تھا میرا پلٹنا لیکن
یاد آجاتے ہیں رستے بھی تو گھر کے ہمراہ
کس سے تصدیق کروں شہر کی بربادی کی
اب تو قاصد بھی نہیں ہوتے خبر کے ہمراہ
ہم نے جنگل میں بھی پیچھے نہیں مڑ کر دیکھا
کیا عجب عزم بندھا رختِ سفر کے ہمراہ
پروین
شاکر
٢٤ نومبر یوم ولادت
کوئی منظر نہ چلا دیدہ تر کے ہمراہ
ایسا لگتا ہے کہ پیروں سے لپٹ آئی ہے
ایک زنجیر بھی اسبابِ سفر کے ہمراہ
اتنا مشکل تو نہ تھا میرا پلٹنا لیکن
یاد آجاتے ہیں رستے بھی تو گھر کے ہمراہ
کس سے تصدیق کروں شہر کی بربادی کی
اب تو قاصد بھی نہیں ہوتے خبر کے ہمراہ
ہم نے جنگل میں بھی پیچھے نہیں مڑ کر دیکھا
کیا عجب عزم بندھا رختِ سفر کے ہمراہ
پروین
شاکر
٢٤ نومبر یوم ولادت