السلام علیکم ورحمتہ اللہ !
جمہور اہل علم کے نزدیک اہل کتاب کی عورتوں سے نکاح جائز ہے
دلیل اللہ تعالی کا یہ فرمان ہے''الْیَوْمَ احِلَّ لَکُمُ الطَّیِّبَاتُ وَطَعَامُ الَّذِیْنَ اوتُواْ الْکِتَابَ حِلّ لَّکُمْ وَطَعَامُکُمْ حِلُّ لَّہُمْ وَالْمُحْصَنَاتُ مِنَ الْمُؤْمِنَاتِ وَالْمُحْصَنَاتُ مِنَ الَّذِیْنَ اوتُواْ الْکِتَابَ مِن قَبْلِکُم الخ المائدہ 5
ترجمہ :آج تمہارے لئے تمام پاک چیزیں حلال کردی گئی ہیں اور اہل کتاب کا کھانا تمہارے لئے حلال ہے اور تمہارا کھانا ان کے لئے' نیز مومن پاکدامن عورتیں تمہارے لئے حلال ہیں اور ان لوگوں کی پاکدامن عورتیں بھی جنہیں تم سے پہلے کتاب دی گئی تھی''
لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ یہاں مرد کو مطلقا آزادی ہے کہ وہ جس اہل کتاب عورت سے نکاح کرنا چاہے کرسکتا ہے ۔۔۔۔ بلکہ اس آیت کریمہ میں کتابیہ عورت سے شادی کے لئے اللہ تعالی نے دو بنیادی شرائط کا ذکر فرمایاہے :
اول یہ کہ وہ عورت واقعی اہل کتاب میں سے ہو یعنی محض نام کا اہل کتاب نہ ہو جیسا کہ موجودہ دور کے یہودونصاری اہل کتاب ہونے کا دعوی تو کرتے ہیں مگر کتاب سے ان کا دور کا بھی واسطہ نہیں ہے بلکہ وہ تو اپنے دین سے بیزار اور باغی ہیں'ایسی صورت میں انہیں اہل کتاب میں شمار کرنا محل نظر ہے۔
دوم یہ کہ وہ عورت پاکدامن ہو اور آج کل اکثر اہل کتاب کی عورتوں میں یہ شرط مفقود ہے۔
آیت کریمہ کے آخری میں اللہ تعالی نے فرمایا ہے :''وَمَن یَکْفُرْ بِالِایْمَانِ فَقَدْ حَبِطَ عَمَلُہُ وَہُوَ فِیْ الآخِرَۃ مِنَ الْخَاسِرِیْن الخ المائدہ 5
ترجمہ : اور جو ایمان کے ساتھ کفر کرے'اس کے عمل برباد ہوگئے اور وہ آخرت میں نقصان اٹھانے والوں میں سے ہوگا۔
اس سے یہ تنبیہ مقصود ہے کہ اگر ایسی عورت سے نکاح کرنے میں ایمان کے ضیاع کا اندیشہ ہو تو بہت ہی خسارہ کا سودا ہوگااور آج کل اہل کتاب کی عورتوں سے نکاح میں ایمان کو جو شدید خطرات لاحق ہوتے ہیں وہ محتاج بیاں نہیں'یہ بات ہر مسلمان کو معلوم ہے کہ ایمان کا بچانا فرض ہے لہذا ایک جائز کام کیلئے فرض کو خطر ے میں نہیں ڈالاجاسکتا۔اس لئے اس کا جواز بھی اس وقت تک ناقابل عمل رہے گاجب تک کہ مذکورہ دونوں شرطیں نہ پائی جائیں۔
چناچہ علماء کرام فرماتے ہیں کہ آج کل کے اکثر اہل کتاب دہریہ ہیں، ان کا نہ تقدیر پر ایمان ہے نہ ہی کسی دین سماوی کے قائل ہیں، ایسی عورت سے مسلمان کا نکاح نہیں ہوسکتا، البتہ اگر کسی یہودی یا عیسائی عورت کے بارے میں تحقیق سے یہ معلوم ہوجائے کہ یہ دہریہ نہیں ہے تو اس سے نکاح ہوجائے گا، مکر دوسرے خطرات کی بنا پر اس سے پرہیز واجب ہے، مثلاً اولاد کے کافر ہونے کا سخت خطرہ ہے، بلکہ خود شوہر کا دین بھی خطرہ سے خالی نہیں۔
اب آجائیں اپنے دوسرے سوال کی طرف کہ "جب لڑکا اہل کتاب لڑکی سے شادی کرسکتا ہے تو لڑکی کیوں نہیں کرسکتی ???
توپہلی بات تو یہ ہے کہ اوپر یہ بات واضح ہوگئی ہے کہ لڑکے کے لئے بھی اہل کتاب لڑکی سے نکاح کے لئے شرائط ہیں ۔۔۔۔ اور ساتھ ہی علماء کرام نے شرائط پوری ہونے کے باوجود بھی دیگر خطرات کی وجہ سے ایسے نکاح سے احتزاز کرنے کا فرمایا ہے ۔
اس کے بعد آپ یہ بات سمجھیں کہ بحیثیت ایک مسلمان کے جب ہمارا ایمان ہے کہ اللہ رب العزت خالق کائنات ہے ۔۔۔۔ یعنی کائنات کی ہر چیز کا پیدا کرنے والا بنانے والا ہے ۔۔۔۔ تو پھر خود سوچیں کہ خالق کائنات سے بڑھ کر انسان کے مسائل اور اُن کے حل سے کون واقف ہوسکتا ہے ???
تو سب سے پہلے تو ہمیں اس یقین کے بنانے کی ضرورت ہے کہ اللہ رب العزت کے ہر ہر حکم میں بے شمار حکتمیں پوشیدہ ہیں۔
بطور ایک مسلمان ہم سب کے لئے یہ فرض ہے کہ ہم اللہ تعالیٰ کے احکامات پر آنکھ بند کرکے ایمان لے آئیں ۔۔۔بجائے اس کے کہ ہم کیوں کیا کیسے وغیرہ کے سوالات کریں
کیوں کہ خالق کائنات کا ہر ہر حکم بے شمار حکمتوں سے پُر ہے۔۔۔ جن میں کچھ تو انسان جان علم حاصل کرکے جان لیتا ہے لیکن پھر بھی نہ جانے کتنی حکمتیں ایسی پوشیدہ رہ جاتیں ہیں جس کی انسان کے ذہن تک رسائی ممکن نہیں ۔۔۔۔ لیکن یہ حقیقت تو لاکھوں کروڑوں فیصد طے شدہ ہے کہ آخر کار اللہ تعالیٰ کے احکامات میں ہی انسان کی فلاح اور بھلائی پوشیدہ ہے ۔
خالق کائنات سے بڑھ کر مخلوق کے مسائل اور اُن کے حل سے کون واقف ہوسکتا ہے ??
اس کے بعد ہر انسان کو اختیار ہے کہ وہ چاہے تو اپنی زندگی اللہ تعالیٰ کے احکامات پر بسر کرے یا اپنی نفسانی خواہشات کے تابع ہوکر کیا ،کیوں کیسے وغیرہ کی دلیلیں دے کر اپنے نفس کو مطمئن کرنے کی کوشش کرتا رہے (جوکہ دراصل اپنے آپ کو دھوکہ دینے کے مترادف ہے ) دونوں راستے انسان کے سامنے کھول کر بیان فرمادئیے گئے ۔۔۔اب یہ ہر انسان کے اختیار میں ہے کہ وہ کون سا راستہ اختیار کرتا ہے
مسلمان عورت کا کسی بھی کافر شخص سے شادی کرنا شرعی طور پر باطل اورحرام ہے اوران کے آپس میں تعلقات بھی زنا شمار ہوں گے ، ان پر اللہ تعالی کے فرمان پر عمل کرتے ہوئے علیحدگي واجب ہے ۔
فرمان باری تعالی ہے : وَلَا تَنكِحُوا الْمُشْرِكَاتِ حَتَّىٰ يُؤْمِنَّ ۚ وَلَأَمَةٌ مُّؤْمِنَةٌ خَيْرٌ مِّن مُّشْرِكَةٍ وَلَوْ أَعْجَبَتْكُمْ ۗ وَلَا تُنكِحُوا الْمُشْرِكِينَ حَتَّىٰ يُؤْمِنُوا ۚ وَلَعَبْدٌ مُّؤْمِنٌ خَيْرٌ مِّن مُّشْرِكٍ وَلَوْ أَعْجَبَكُمْ ۗ أُولَـٰئِكَ يَدْعُونَ إِلَى النَّارِ ۖ وَاللَّـهُ يَدْعُو إِلَى الْجَنَّةِ وَالْمَغْفِرَةِ بِإِذْنِهِ الخ البقرۃ 221
ترجمہ :اورمشرک مردوں کے نکاح میں اپنی عورتیں نہ دو جب تک کہ وہ ایمان نہیں لاتے ، ایمان والا غلام آزاد مشرک سے بہتر ہے گومشرک تمہیں اچھا ہی کیوں نہ لگے ، یہ لوگ جہنم کی طرف بلاتے ہیں اوراللہ تعالی اپنے حکم سے جنت اوراپنی بخشش کی طرف بلاتا ہے
اوراللہ تعالی نے کافروں کے لیے مسلمان عورت کے حلال نہ ہونے کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا ہے : لَا هُنَّ حِلٌّ لَّهُمْ وَلَا هُمْ يَحِلُّونَ لَهُنَّ الخ الممتحنہ 10
ترجمہ : نہ تو وہ ( مسلمان عورتیں )حلال ہیں ان کافر مردوں کے لیے اور نہ ہی وہ ( کافر مرد )حلال ہیں ان ( مسلمان عورتوں ) کے لیے
امام قرطبی رحمہ اللہ تعالی اپنی کتاب الجامع لاحکام القرآن میں کہتے ہيں:
امت کا اس پر اجماع ہے کہ مشرک مرد مسلمان عورت سے شادی نہيں کرسکتا کیونکہ اس میں اسلام کی پستی توہین پائي جاتی ہے ۔دیکھیں الجامع لاحکام القرآن ( 3 / 72 )
اب آخر میں اپنے سوال کا جواب بھی ملاحظ فرمالیں کہ اہل کتاب کی کافرہ عورت مسلمان مرد کےلیے کیوں حلال ہے اورمسلمان عورت اہل کتاب کافر کے لیے حلال کیوں نہيں کی گئي؟
اس کا جواب دو لحاظ سے ہے :
اول : اسلام بلندی اختیار کرنے والا دین ہے اوراس پر کوئي اورغالب نہيں آسکتا ، اورشادی میں مرد کو عورت پر فوقیت اورسربراھی حاصل ہے کیونکہ مرد میں رجولیت پائي جاتی ہے ، اورپھر یہ ہوسکتا ہے کہ مرد اپنی بیوی پر اثر انداز ہو جس کی بنا پر عورت اپنے دین پر عمل نہ کرسکے اوراس کے واجبات کی ادائيگي نہ کرپائے ، اوراس کی وجہ سے وہ مکمل طور پرہی دین کو چھوڑ دے ، اوراسی طرح اولاد بھی دین میں اپنے والد کے تابع ہو گی ۔
دوسرا جواب :
اسلام ایک شامل اورکامل دین ہے لیکن اس کے علاوہ باقی ادیان ناقص ہیں ، اوراس پرہی اجتماعیت کی بنیاد ہے جو خاندان کی طبیعت اورحسن معاشرت پر بھی اثرانداز ہوتا ہے ، وہ اس طرح کہ جب مسلمان شخص کسی کتابی لڑکی سے شادی کرے گا تو مسلمان اس لڑکی کی کتاب اور رسول پر ایمان رکھتا ہے ، تو اس طرح وہ اس کے دین پرمجمل ایمان رکھنے کی بنا پراس کے دین اورمبادیات کا احترام کرے گا جو کہ آپس میں تفاھم اورسمجھنے سمجھانے کا ذریعہ ہے ، اوراسی بنا پروہ عورت اپنی کتاب کی بنا پر اسلام قبول کرلے گی ۔
لیکن اگر اہل کتاب کے کسی کافر نے جب مسلمان عورت سے شادی کی جو کہ عورت کے دین پر ایمان ہی نہیں رکھتا ، تو اس لیے مسلمان عورت اس سے اپنے دین اور مبادیات کا احترام نہیں پائے گی ، تو اس طرح ان کی آپس میں نہيں بن پائے گي اوروہ تفاھم اختیار نہیں کرسکیں گے کیونکہ وہ تو اس کے دین پر مکمل ایمان ہی نہیں رکھتا ۔
تواس طرح اس شادی کی مکمل طور پر کوئي ضرورت ہی نہیں رہ جاتی جس کی بنا پراسے ابتدا میں ہی منع کردیا گيا ہے ۔ ا ھـ کچھ کمی بیشی کے ساتھ
دیکھیں اضواء البیان ( 8 / 164- 165 )
واللہ اعلم بالصواب
امید ہے اس ساری تفصیل میں آپ کو آپ کے سوالات کا جواب بخوبی مل جائے گا