حضرت زبیر بن العوامؓ
نام،نسب،خاندان
زبیر نام،ابوعبداللہ کنیت،حواری رسول اللہ ﷺ لقب،والد کا نام عوام اوروالدہ کا نام صفیہ تھا، پورا سلسلہ نسب یہ ہے،زبیر بن العوام بن خویلدبن اسد بن عبدالعزی بن قصی بن کلاب بن مرہ بن کعب بن لوئی القرشی الاسدی،حضرت زبیر ؓ کا سلسلہ نسب قصی بن کلاب پر آنحضرت ﷺ سے مل جاتا ہے اور چونکہ ان کی والدہ حضرت صفیہ ؓ سرورِ کائنات ﷺ کی پھوپی تھیں، اس لیے آنحضرت ﷺ کے پھوپھی زاد بھائی تھے، اس کے علاوہ آنحضرت ﷺ کی زوجہ محترمہ ام المومنین حضرت خدیجہ ؓ کے بھی حقیقی بھتیجے تھے اورحضرت صدیق ؓ کے داماد ہونے کے سبب سے آنحضرت ﷺ کے ساڑھو بھی تھے اوراس طرح ذات نبوی ﷺ کے ساتھ ان کو متعدد نسبتیں حاصل تھیں۔
حضرت زبیر ؓ ہجرت نبوی ﷺ سے اٹھائیس سال قبل پیدا ہوئے،بچپن کے حالات بہت کم معلوم ہیں،لیکن اس قدر یقینی ہے کہ ان کی والدہ حضرت صفیہ ؓ نے ابتداہی سے ان کی ایسی تربیت کی تھی کہ وہ جوان ہوکر ایک عالی حوصلہ،بہادر،الوالعزم مرد ثابت ہوں، چنانچہ وہ بچپن میں عموماًانہیں مارا پیٹا کرتیں اورسخت سے سخت محنت ومشقت کے کام کا عادی بناتی تھیں، ایک دفعہ نوفل بن خویلد جو اپنے بھائی عوام کے مرنے کے بعد ان کے ولی تھے، حضرت صفیہ ؓ پر نہایت خفا ہوئے کہ کیا تم اس بچے کو اس طرح مارتے مارتے مارڈالوگی، اوربنوہاشم سے کہا کہ تم لوگ صفیہ ؓ کو سمجھاتے کیوں نہیں، حضرت صفیہ ؓ نے حسب ذیل رجز میں اس خفگی کا جواب دیا۔
(ابن سعد اصابہ تذکرہ زبیر ؓ)
من قال انی ابغضہ فقد کذب انما اضربہ لکی یلب
جس نے یہ کہا کہ میں اس سے بغض رکھتی ہوں، اس نے جھوٹ کہا، میں اس کو اس لیے مارتی ہوں کہ عقل مند ہو۔
ویھزم الجیش یاتی باسلب الخ
اورفوج کو شکست دے اورمال غنیمت حاصل کرے
اس تربیت کا یہ اثر تھاکہ وہ بچپن ہی میں بڑے بڑے مردوں کا مقابلہ کرنے لگے تھے،ایک دفعہ مکہ میں ایک جوان آدمی سے مقابلہ پیش آیا، انہوں نے ایسا ہاتھ مارا کہ اس کا ہاتھ ٹوٹ گیا،لوگ اسے لاد کر شکایۃً حضرت صفیہ ؓ کے پاس لائے،تو انہوں نے معذرت و عفوخواہی کےبجائے سب سے پہلے یہ پوچھا کہ تم نے زبیر ؓ کو کیسا پایا،بہادر یا بزدل۔
(اصابہ جلد ۱ تذکرہ زبیر ؓ)
زبیر نام،ابوعبداللہ کنیت،حواری رسول اللہ ﷺ لقب،والد کا نام عوام اوروالدہ کا نام صفیہ تھا، پورا سلسلہ نسب یہ ہے،زبیر بن العوام بن خویلدبن اسد بن عبدالعزی بن قصی بن کلاب بن مرہ بن کعب بن لوئی القرشی الاسدی،حضرت زبیر ؓ کا سلسلہ نسب قصی بن کلاب پر آنحضرت ﷺ سے مل جاتا ہے اور چونکہ ان کی والدہ حضرت صفیہ ؓ سرورِ کائنات ﷺ کی پھوپی تھیں، اس لیے آنحضرت ﷺ کے پھوپھی زاد بھائی تھے، اس کے علاوہ آنحضرت ﷺ کی زوجہ محترمہ ام المومنین حضرت خدیجہ ؓ کے بھی حقیقی بھتیجے تھے اورحضرت صدیق ؓ کے داماد ہونے کے سبب سے آنحضرت ﷺ کے ساڑھو بھی تھے اوراس طرح ذات نبوی ﷺ کے ساتھ ان کو متعدد نسبتیں حاصل تھیں۔
حضرت زبیر ؓ ہجرت نبوی ﷺ سے اٹھائیس سال قبل پیدا ہوئے،بچپن کے حالات بہت کم معلوم ہیں،لیکن اس قدر یقینی ہے کہ ان کی والدہ حضرت صفیہ ؓ نے ابتداہی سے ان کی ایسی تربیت کی تھی کہ وہ جوان ہوکر ایک عالی حوصلہ،بہادر،الوالعزم مرد ثابت ہوں، چنانچہ وہ بچپن میں عموماًانہیں مارا پیٹا کرتیں اورسخت سے سخت محنت ومشقت کے کام کا عادی بناتی تھیں، ایک دفعہ نوفل بن خویلد جو اپنے بھائی عوام کے مرنے کے بعد ان کے ولی تھے، حضرت صفیہ ؓ پر نہایت خفا ہوئے کہ کیا تم اس بچے کو اس طرح مارتے مارتے مارڈالوگی، اوربنوہاشم سے کہا کہ تم لوگ صفیہ ؓ کو سمجھاتے کیوں نہیں، حضرت صفیہ ؓ نے حسب ذیل رجز میں اس خفگی کا جواب دیا۔
(ابن سعد اصابہ تذکرہ زبیر ؓ)
من قال انی ابغضہ فقد کذب انما اضربہ لکی یلب
جس نے یہ کہا کہ میں اس سے بغض رکھتی ہوں، اس نے جھوٹ کہا، میں اس کو اس لیے مارتی ہوں کہ عقل مند ہو۔
ویھزم الجیش یاتی باسلب الخ
اورفوج کو شکست دے اورمال غنیمت حاصل کرے
اس تربیت کا یہ اثر تھاکہ وہ بچپن ہی میں بڑے بڑے مردوں کا مقابلہ کرنے لگے تھے،ایک دفعہ مکہ میں ایک جوان آدمی سے مقابلہ پیش آیا، انہوں نے ایسا ہاتھ مارا کہ اس کا ہاتھ ٹوٹ گیا،لوگ اسے لاد کر شکایۃً حضرت صفیہ ؓ کے پاس لائے،تو انہوں نے معذرت و عفوخواہی کےبجائے سب سے پہلے یہ پوچھا کہ تم نے زبیر ؓ کو کیسا پایا،بہادر یا بزدل۔
(اصابہ جلد ۱ تذکرہ زبیر ؓ)