حقیقی کامیابی اللہ کی فرمانبرداری میں ہے......2 محرم 1434ھ
خطبہ جمعہ حرم مدنی
خطیب: عبدالرحمٰن الحذیفی
خطیب: عبدالرحمٰن الحذیفی
پہلا خطبہ
الحمد لله العزيز الغفار، خلق الخلقَ ودبَّرهم بقُدرته وعلمه ورحمته هو الواحد القهَّار، أحمد ربي وأشكره، وأتوب إليه وأستغفره، وأشهد أن لا إله إلا الله وحده لا شريك له، له المُلك الملِكُ الجبار، يُقلِّبُ الليل والنهار، إن في ذلك لعبرةً لأولي الأبصار، وأشهد أن نبيَّنا وسيدَنا محمدًا عبده ورسوله المُصطفى المُختار، اللهم صلِّ وسلِّم وبارِك على عبدك ورسولِك محمدٍ، وعلى آله وصحبه الأبرار.
أما بعد
لوگو! اللہ کا تقویٰ اور اطاعت اختیار کرو کہ تقویٰ ہی عذاب و عقاب سے انسان کے لیے ڈھال اور جنتوں سے ہمکنار کرنے والا اعلی کمال ہے۔ خبردار! خود کو ان میں شامل نہ کربیٹھنا جو رب سے ملاقات کو فراموش کر بیٹھے، نتیجتاً نہ دین کے رہے نہ دنیا کے، ہاتھ میں دنیا بھی نہ رہی اور نصیبے سے جنت بھی گئی۔
اللہ کے بندو! خوب جان رکھو! نہ تو اللہ کی اطاعت کر کے کوئی بدبخت رہ سکتا ہے اور نہ اس کی معصیت کر کے کوئی سعادت مند بن سکتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
وَمَنْ يُطِعِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَيَخْشَ اللَّهَ وَيَتَّقْهِ فَأُولَئِكَ هُمُ الْفَائِزُونَ [النور: 52]
’’اور جو شخص اللہ اور اس کے رسول کی فرمانبرداری کرے گا اور اس سے ڈرے گا تو ایسے ہی لوگ مراد کو پہنچنے والے ہیں۔‘‘
مزید فرمایا:
وَمَنْ يَعْصِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ فَإِنَّ لَهُ نَارَ جَهَنَّمَ خَالِدِينَ فِيهَا أَبَدًا [الجن: 23]
وَمَنْ يَعْصِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ فَإِنَّ لَهُ نَارَ جَهَنَّمَ خَالِدِينَ فِيهَا أَبَدًا [الجن: 23]
’’اور جو شخص اللہ اور اس کے پیغمبر کی نافرمانی کرے گا تو ایسوں کے لیے جہنم کی آگ ہے ہمیشہ ہمیشہ اس میں رہیں گے۔‘‘
لوگو! بڑے مقدس اور مبارک ناموں والا تمہارا رب نہایت رحیم بھی ہے اور قدرت و حکمت والا علیم بھی ہے۔ اس نےتمھیں سماعت و بصارت دی اور دل و اعضا دئیے تاکہ تم ان کے ذریعے سے عبادت کرتے ہوئے اس کا شکر ادا کرو۔
اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
وَاللَّهُ أَخْرَجَكُمْ مِنْ بُطُونِ أُمَّهَاتِكُمْ لَا تَعْلَمُونَ شَيْئًا وَجَعَلَ لَكُمُ السَّمْعَ وَالْأَبْصَارَ وَالْأَفْئِدَةَ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ [النحل: 78]
وَاللَّهُ أَخْرَجَكُمْ مِنْ بُطُونِ أُمَّهَاتِكُمْ لَا تَعْلَمُونَ شَيْئًا وَجَعَلَ لَكُمُ السَّمْعَ وَالْأَبْصَارَ وَالْأَفْئِدَةَ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ [النحل: 78]
’’اور اللہ ہی نے تم کو تمہاری ماؤں کے شکم سے پیدا کیا کہ تم کچھ نہیں جانتے تھے ۔ اس نے تم کو کان، آنکھیں اور دل (اور ان کے علاوہ اور) اعضا بخشے تاکہ تم شکر کرو۔‘‘
یہ اس پاک ذات کی شفقت و رحمت ہی ہے کہ اس نے صاحبان ہوش و خرد کے لیے کائنات میں جا بہ جا نشانیاں رکھ چھوڑی ہیں اور پھر ان مخلوقات کو بغیر کسی نمونے کے انوکھی بناوٹ پر پیدا فرمایا تاکہ مخلوق پہچان جائے کہ اس کا کوئی رب بھی ہے اور وہ اس کےاحکام پر عمل پیرا ہو کر اور ممنوعات سے باز رہ کر اس کا قرب حاصل کرلیں۔
فرمایا:
هُوَ الَّذِي جَعَلَ الشَّمْسَ ضِيَاءً وَالْقَمَرَ نُورًا وَقَدَّرَهُ مَنَازِلَ لِتَعْلَمُوا عَدَدَ السِّنِينَ وَالْحِسَابَ مَا خَلَقَ اللَّهُ ذَلِكَ إِلَّا بِالْحَقِّ يُفَصِّلُ الْآيَاتِ لِقَوْمٍ يَعْلَمُونَ (5) إِنَّ فِي اخْتِلَافِ اللَّيْلِ وَالنَّهَارِ وَمَا خَلَقَ اللَّهُ فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ لَآيَاتٍ لِقَوْمٍ يَتَّقُونَ [يونس: 5، 6]
هُوَ الَّذِي جَعَلَ الشَّمْسَ ضِيَاءً وَالْقَمَرَ نُورًا وَقَدَّرَهُ مَنَازِلَ لِتَعْلَمُوا عَدَدَ السِّنِينَ وَالْحِسَابَ مَا خَلَقَ اللَّهُ ذَلِكَ إِلَّا بِالْحَقِّ يُفَصِّلُ الْآيَاتِ لِقَوْمٍ يَعْلَمُونَ (5) إِنَّ فِي اخْتِلَافِ اللَّيْلِ وَالنَّهَارِ وَمَا خَلَقَ اللَّهُ فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ لَآيَاتٍ لِقَوْمٍ يَتَّقُونَ [يونس: 5، 6]
’’ وہی تو ہے جس نے سورج کو روشن اور چاند کو منور بنایا اور چاند کی منزلیں مقرر کیں تاکہ تم برسوں کا شمار اور (کاموں کا) حساب معلوم کرو۔ یہ (سب کچھ) خدا نے تدبیر سے پیدا کیا ہے۔ سمجھنے والوں کے لیے وہ اپنی آیاتیں کھول کھول کر بیان فرماتا ہے (5) رات اور دن کے (ایک دوسرے کے پیچھے) آنے جانے میں اور جو چیزیں خدا نے آسمان اور زمین میں پیدا کی ہیں (سب میں) ڈرنے والوں کے لیے نشانیاں ہیں- ‘‘
ایک مقام پر فرمایا:
وَآيَةٌ لَهُمُ اللَّيْلُ نَسْلَخُ مِنْهُ النَّهَارَ فَإِذَا هُمْ مُظْلِمُونَ (37) وَالشَّمْسُ تَجْرِي لِمُسْتَقَرٍّ لَهَا ذَلِكَ تَقْدِيرُ الْعَزِيزِ الْعَلِيمِ [يس: 37، 38]
وَآيَةٌ لَهُمُ اللَّيْلُ نَسْلَخُ مِنْهُ النَّهَارَ فَإِذَا هُمْ مُظْلِمُونَ (37) وَالشَّمْسُ تَجْرِي لِمُسْتَقَرٍّ لَهَا ذَلِكَ تَقْدِيرُ الْعَزِيزِ الْعَلِيمِ [يس: 37، 38]
’’ ور ایک نشانی ان کے لئے رات ہے کہ اس میں سے ہم دن کو کھینچ لیتے ہیں تو اس وقت ان پر اندھیرا چھا جاتا ہے (37) اور سورج اپنے مقرر رستے پر چلتا رہتا ہے۔ یہ (خدائے) غالب اور دانا کا (مقرر کیا ہوا) اندازہ ہے- ‘‘
مزید فرمایا:
وَهُوَ الَّذِي جَعَلَ اللَّيْلَ وَالنَّهَارَ خِلْفَةً لِمَنْ أَرَادَ أَنْ يَذَّكَّرَ أَوْ أَرَادَ شُكُورًا [الفرقان: 62]
وَهُوَ الَّذِي جَعَلَ اللَّيْلَ وَالنَّهَارَ خِلْفَةً لِمَنْ أَرَادَ أَنْ يَذَّكَّرَ أَوْ أَرَادَ شُكُورًا [الفرقان: 62]
’’ اور وہی تو ہے جس نے رات اور دن کو ایک دوسرے کے پیچھے آنے جانے والا بنایا۔ (یہ باتیں) اس شخص کے لئے جو غور کرنا چاہے یا شکرگزاری کا ارادہ کرے (سوچنے اور سمجھنے کی ہیں) ‘‘
مفسرین بیان کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے دن اور رات کو ایک دوسرے کے تعاقب میں اس لیے لگا دیا تاکہ بندوں کے لیے عبادت کے اوقات مقرر ہو جائیں اور جس کے رات کے اعمال رہ جائیں وہ دن میں اور جس کے دن کے اعمال رہ جائیں وہ رات کو پورا کر سکے۔ سو جان رکھیے کہ دن اور رات بھی اللہ کی نشانیوں میں سے دو عظیم الشان نشانیاں ہیں، جو آسمان و زمین کی تخلیق کے روز اول ہی سے ایک دوسرے کے تعاقب میں جاری و ساری ہیں اور اللہ تعالیٰ نے ان دونوں میں مخلوقات کے اتنے فائدے رکھ دئیے ہیں کہ جن کا شمار بھی اللہ کی ذات کے سوا کوئی نہیں کر سکتا۔ پھر ان میں عبرت و نصیحت کے کثیر پہلوؤں کا احاطہ و شمار بھی ناممکنات میں سے ہے۔
دن اور رات کی گنتی جب ایک مخصوص مدت تک پہنچ جاتی ہے تو ان سے مہینہ مکمل ہو جاتا ہے اور جب مہینے مہینوں سے ملتے جاتے ہیں تو سال تشکیل پا جاتا ہے اور جب سالوں پر سال ہوتے چلے جاتے ہیں تو اس سے دنیا میں لوگوں، نسلوں اور قوموں کی زندگیاں تکمیل پاتی ہیں۔
پھر روز محشر سب لوگ رب کے حضور جمع ہوں گے اور وہ انھیں ان کے اعمال کی عادلانہ جزا دے گا۔ خیر کہ بدلہ خیر اور شر کا بدلہ شر ہو گا اور رب کسی پر ظلم نہیں کرتا۔ اور اگر نیکی کی ہوگی تو اس کو دو چند کر دے گا اور اپنے ہاں سےاجر عظیم بخشے گا۔[النساء :40]
یہی وہ شب و روز ہیں جو گزشتہ اقوام کے ساتھی تھے، سو یہ ان کے اعمال بد اور اعمال صالحہ کے گواہ ہو گئے۔ سو منکروں کے لیے بدترین اور ماننے والوں کے لیے عمدہ ترین ٹھکانہ ہو گا۔ کوئی ہے جو اس سے نصیحت اور عبرت حاصل کرے ؟ اے غفلت شعار انسان! تو کب اپنے آپ پر رحم کرےگا؟ اے سرکشی میں مبتلا! کیا تو رب کے حضور توبہ نہ کرے گا۔ اے فریب خوردہ انسان! تو رب کے حلم سے فائدہ اٹھا کر گناہوں سے نجات کیوں حاصل نہیں کر لیتا۔ بھلا تجھے عزت و جلال والے رب سے حیا نہیں آتی؟ وہ رب کےجس نے تجھے ظاہری و باطنی نعمتوں سے تول کے رکھ دیا ہے اور تو ہے کہ گناہوں کے ذریعے سے اس کے غضب کو للکار رہا ہے۔ کیا عبرت اثر آیات اور اشک آور نصیحت سےتیرا دل نہیں پگھلتا؟ کیا تو موت سے پہلے اپنا محاسبہ نہ کرے گا؟ کیا تجھے معلوم نہیں کہ گناہوں کی لذت تو یوں ختم ہو جاتی ہے گویا کبھی تھی ہی نہیں، مگر اس کے اثرات اور وبال ہمیشہ باقی رہتے ہیں۔
کیا تو نےصبح و شام کو قافلہ در قافلہ رب کی طرف جاتے نہیں دیکھا؟ اور کیا تو بھول گیا کہ کل تیری حقیقت لوگوں کے کندھوں پر پڑا محض اک بوجھ ہو گا؟ اور کیا تیرا خیال ہے اللہ ظالموں کے اعمال سے بے خبر ہے؟ اے مسلمان! کیا تجھے خیر و بھلائی سے جھولیاں بھرنے کی کوئی چاہت نہیں، اس سے پہلے کہ نیک اعمال اور تیرے درمیان رکاوٹ کھڑی کر دی جائے؟ یاد رکھ! سال کے جانے اور نئے سال کے آنے میں رب سے خشیت رکھنے والوں، برے حساب سے ڈرنے والوں اور صاحبان ایمان و ارباب بصیرت کے لیے بڑی عبرتیں اور نشانیاں ہیں۔
گزرے سال اور گزشتہ ادوار ہمیں وہ سب واقعات اور اعمال یاد دلاتے ہیں جو پہلی قومیں کرتی رہیں۔ وہ اعمال کے جن کے حق میں یا ان کے خلاف زمانے کی بھرپور گواہی ہو گئے۔مثلاً انبیا و رسل اور ان کے متبعین نے ان ادوار کے حوالے سے اقوال و افعال اور نیک اعمال کے بہترین نمونے چھوڑے۔ نصرت دی، عبادت الٰہی لوگوں کی ہدایت اور اللہ کی طرف ان تھک دعوت کے نمونے۔ لوگوں کے ساتھ شفقت و رحمت اور مصائب پر صبر کے نمونے، چنانچہ وہ دنیا و آخرت کی بھلائیاں اکٹھی کرنے میں کامیاب رہے اور ہر قسم کے شر سے نجات پا گئے۔
اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
لَكِنِ الرَّسُولُ وَالَّذِينَ آمَنُوا مَعَهُ جَاهَدُوا بِأَمْوَالِهِمْ وَأَنْفُسِهِمْ وَأُولَئِكَ لَهُمُ الْخَيْرَاتُ وَأُولَئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ (88) أَعَدَّ اللَّهُ لَهُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِي مِنْ تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا ذَلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ [التوبة: 88، 89].
لَكِنِ الرَّسُولُ وَالَّذِينَ آمَنُوا مَعَهُ جَاهَدُوا بِأَمْوَالِهِمْ وَأَنْفُسِهِمْ وَأُولَئِكَ لَهُمُ الْخَيْرَاتُ وَأُولَئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ (88) أَعَدَّ اللَّهُ لَهُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِي مِنْ تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا ذَلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ [التوبة: 88، 89].
’’ لیکن پیغمبر اور جو لوگ ان کے ساتھ ایمان لائے سب اپنے مال اور جان سے لڑے۔ انہیں لوگوں کے لیے بھلائیاں ہیں۔ اور یہی مراد پانے والے ہیں (88) خدا نے ان کے لیے باغات تیار کر رکھے ہیں جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہیں ہمیشہ ان میں رہی گے۔ یہ بڑی کامیابی ہے۔ ‘‘
اس کے بالمقابل انبیا اور پروان انبیا کے دشمنوں نے ادوار گزشتہ میں کفر و معصیت اور اللہ و سول سے محاذ آرائی کی تاریخ چھوڑی، نتیجتاً وہ ناکام و نامراد ہوئے اور اپنی خواہشات کے معاملے میں تشنہ تعمیل رہے۔ انھوں نے دنیا سے جو پایا وہ بھی ناقابل ذکر اور قلیل محض تھا اور آخرت سے تو کلیتاً محرومی ہی ان کے نصیبے میں آئی۔
اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
ثُمَّ أَنْشَأْنَا مِنْ بَعْدِهِمْ قُرُونًا آخَرِينَ (42) مَا تَسْبِقُ مِنْ أُمَّةٍ أَجَلَهَا وَمَا يَسْتَأْخِرُونَ (43) ثُمَّ أَرْسَلْنَا رُسُلَنَا تَتْرَى كُلَّ مَا جَاءَ أُمَّةً رَسُولُهَا كَذَّبُوهُ فَأَتْبَعْنَا بَعْضَهُمْ بَعْضًا وَجَعَلْنَاهُمْ أَحَادِيثَ فَبُعْدًا لِقَوْمٍ لَا يُؤْمِنُونَ [المؤمنون: 42- 44]
ثُمَّ أَنْشَأْنَا مِنْ بَعْدِهِمْ قُرُونًا آخَرِينَ (42) مَا تَسْبِقُ مِنْ أُمَّةٍ أَجَلَهَا وَمَا يَسْتَأْخِرُونَ (43) ثُمَّ أَرْسَلْنَا رُسُلَنَا تَتْرَى كُلَّ مَا جَاءَ أُمَّةً رَسُولُهَا كَذَّبُوهُ فَأَتْبَعْنَا بَعْضَهُمْ بَعْضًا وَجَعَلْنَاهُمْ أَحَادِيثَ فَبُعْدًا لِقَوْمٍ لَا يُؤْمِنُونَ [المؤمنون: 42- 44]
’’ پھر ان کے بعد ہم نے اور جماعتیں پیدا کیںکوئی جماعت اپنے وقت سے نہ آگے جاسکتی ہے نہ پیچھے رہ سکتی ہے (43) پھر ہم نے پے درپے اپنے پیغمبر بھیجتے رہے۔ جب کسی اُمت کے پاس اس کا پیغمبر آتا تھا تو وہ اسے جھٹلاتے تھے تو ہم بھی بعض کو بعض کے پیچھے (ہلاک کرتے اور ان پر عذاب) لاتے رہے اور ان کے افسانے بناتے رہے۔ پس جو لوگ ایمان نہیں لاتے ان پر لعنت ‘‘
مزید فرمایا:
إِنَّ الَّذِينَ كَذَّبُوا بِآيَاتِنَا وَاسْتَكْبَرُوا عَنْهَا لَا تُفَتَّحُ لَهُمْ أَبْوَابُ السَّمَاءِ وَلَا يَدْخُلُونَ الْجَنَّةَ حَتَّى يَلِجَ الْجَمَلُ فِي سَمِّ الْخِيَاطِ وَكَذَلِكَ نَجْزِي الْمُجْرِمِينَ (40) لَهُمْ مِنْ جَهَنَّمَ مِهَادٌ وَمِنْ فَوْقِهِمْ غَوَاشٍ وَكَذَلِكَ نَجْزِي الظَّالِمِينَ [الأعراف: 40، 41]
إِنَّ الَّذِينَ كَذَّبُوا بِآيَاتِنَا وَاسْتَكْبَرُوا عَنْهَا لَا تُفَتَّحُ لَهُمْ أَبْوَابُ السَّمَاءِ وَلَا يَدْخُلُونَ الْجَنَّةَ حَتَّى يَلِجَ الْجَمَلُ فِي سَمِّ الْخِيَاطِ وَكَذَلِكَ نَجْزِي الْمُجْرِمِينَ (40) لَهُمْ مِنْ جَهَنَّمَ مِهَادٌ وَمِنْ فَوْقِهِمْ غَوَاشٍ وَكَذَلِكَ نَجْزِي الظَّالِمِينَ [الأعراف: 40، 41]
’’ جن لوگوں نے ہماری آیتوں کو جھٹلایا اور ان سے سرتابی کی۔ ان کے لیے نہ آسمان کے دروازے کھولے جائیں گے اور نہ وہ بہشت میں داخل ہوں گے۔ یہاں تک کہ اونٹ سوئی کے ناکے میں سے نہ نکل جائے اور گنہگاروں کو ہم ایسی ہی سزا دیا کرتے ہیں (40) ایسے لوگوں کے لیے (نیچے) بچھونا بھی (آتش) جہنم کا ہوگا اور اوپر سے اوڑھنا بھی (اسی کا) اور ظالموں کو ہم ایسی ہی سزا دیا کرتے ہیں ‘‘
مسلمانو! ادوار گزشتہ کےعظیم الشان اور جلیل القدر معاملات میں سے ایک نہایت درخشندہ واقعہ ہجرت رسول بھی ہے جس کا ہر سال ہم تذکرہ کرتے ہیں، وہ ہجرت جو بحکم الٰہی مکہ سے مدینہ کی طرف کی گئی۔ وہ کہ جسے اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کے لیے نصرت و تائید کا استعارہ بنا دیا،
فرمایا:
إِلَّا تَنْصُرُوهُ فَقَدْ نَصَرَهُ اللَّهُ إِذْ أَخْرَجَهُ الَّذِينَ كَفَرُوا ثَانِيَ اثْنَيْنِ إِذْ هُمَا فِي الْغَارِ إِذْ يَقُولُ لِصَاحِبِهِ لَا تَحْزَنْ إِنَّ اللَّهَ مَعَنَا [التوبة: 40]
إِلَّا تَنْصُرُوهُ فَقَدْ نَصَرَهُ اللَّهُ إِذْ أَخْرَجَهُ الَّذِينَ كَفَرُوا ثَانِيَ اثْنَيْنِ إِذْ هُمَا فِي الْغَارِ إِذْ يَقُولُ لِصَاحِبِهِ لَا تَحْزَنْ إِنَّ اللَّهَ مَعَنَا [التوبة: 40]
’’ اگر تم پیغمبر کی مدد نہ کرو گے تو خدا اُن کا مددگار ہے (وہ وقت تم کو یاد ہوگا) جب ان کو کافروں نے گھر سے نکال دیا۔ (اس وقت) دو (ہی ایسے شخص تھے جن) میں (ایک ابوبکرؓ تھے) اور دوسرے (خود رسول الله) جب وہ دونوں غار (ثور) میں تھے اس وقت پیغمبر اپنے رفیق کو تسلی دیتے تھے کہ غم نہ کرو خدا ہمارے ساتھ ہے۔ ‘‘
اللہ تعالیٰ نے ہجرت کے ذریعے قیامت تک کے لیےاسلام کی نصرت و فتح کا دروازہ کھول دیا۔ بجا کہ عہد حاضر کے مسلمان ہجرت کی وہ فضیلت گزشتہ نہیں پا سکتے تاہم اللہ نے اپنے فضل و کرم سے ان کے لیے ایک دوسری ہجرت کا در کھول دیا ہے۔ ان کی ہجرت کے بھی بڑے اجرو ثواب ہیں۔ سو رب کریم نے اس عہد اور عہد آئندہ کے سبھی مسلمانوں کے لیے سہوت مہیا فرما دی کہ ان کے دل شرک کی گھاٹیوں سے توحید کی وادیوں کی طرف ہجرت کر لیں۔ وہ معصیت سےاطاعت کی طرف، عبادت کی راہ میں درپیش حائل رکاوٹ سے بھرپور عبادت کی طرف، بدعت کی خرافات سے سنت کی روشنیوں کی طرف اور اپنی مذموم اور متصادم شریعت خواہشات سے اللہ و رسول کی چاہت کی طرف ہجرت کر لیں۔ صحیح مسلم میں ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ہرج یعنی فتنوں کے دور میں عبادت کرنا میری طرف ہجرت کے مانند ہے۔ اور فرمایا: سچا مسلمان تو وہ ہے جس کی زبان اور اعضا سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں اور سچا مہاجر وہ ہے جس نے رب کے حرام کردہ امور کو چھوڑ دیا۔
یاد رکھیے! قرآنی آیات اور نشانیاں، دلوں کو ہدایت، بصیرتوں کو جلا، انسانوں کو اصلاح ہمتوں کو رفعت، زندگی کو نظم و ضبط اور ایمان کو غذا فراہم کرتی ہیں اور مختصراً وہ انسان کو راہ راست پر استقامت بخشتی ہیں۔ جب انسان قرآنی نشانیوں کو کائناتی علامتوں کے تناظر میں رکھ کر عبرت و بصیرت کے فائدے اٹھاتا ہے تو وہ فضائل کے درجہ کو چھو لیتا ہے اور رذائل سے پاک صاف ہو جاتاہے۔
اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
إِنَّ هَذَا الْقُرْآنَ يَهْدِي لِلَّتِي هِيَ أَقْوَمُ [الإسراء: 9]
إِنَّ هَذَا الْقُرْآنَ يَهْدِي لِلَّتِي هِيَ أَقْوَمُ [الإسراء: 9]
’’ ہ قرآن وہ رستہ دکھاتا ہے جو سب سے سیدھا ہے۔ ‘‘
لیکن بہت غور سے سمجھنے کی بات یہ ہے کہ تفہیم و تدبرِ قرآن تبھی مفید ہوتا ہے جب اسے صحابہ، تابعین اور تبع تابعین جیسے اسلاف کے اسلوب پر سمجھا جائے۔ ذہن نشیں رہے کہ قرآن مجید لوگوں کے لیے اللہ تعالیٰ کی آخری اور حتمی حجت ہے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
تِلْكَ آيَاتُ اللَّهِ نَتْلُوهَا عَلَيْكَ بِالْحَقِّ فَبِأَيِّ حَدِيثٍ بَعْدَ اللَّهِ وَآيَاتِهِ يُؤْمِنُونَ [الجاثية: 6]
تِلْكَ آيَاتُ اللَّهِ نَتْلُوهَا عَلَيْكَ بِالْحَقِّ فَبِأَيِّ حَدِيثٍ بَعْدَ اللَّهِ وَآيَاتِهِ يُؤْمِنُونَ [الجاثية: 6]
’’ ہ خدا کی آیتیں ہیں جو ہم تم کو سچائی کے ساتھ پڑھ کر سناتے ہیں۔ تو یہ خدا اور اس کی آیتوں کے بعد کس بات پر ایمان لائیں گے؟ ‘‘