سوال نمبر: ٢٣٠
تاریخ اشاعت: ١٧-١٠-٢٠٠٩
جواب منجانب: منبر کی شرعی کمیٹی
سوال: السلام و علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ۔۔۔۔!
میں ایران کے صوبے “الاحواز” کا ایک عربی اہل سنت والجماعت میں سے ہوں۔ اور جیسا کہ آپ جانتے ہیں کہ ہم مظلوم ہیں ہمارے ہاں نہ تو مساجد ہیں اور نہ ہی علماء ۔۔۔۔۔۔۔
میرا سوال یہ ہے کہ ہمارے لیئے گھر میں نماز جمعہ پڑھنا جائز ہے؟ یہ جانتے ہوئے کہ یہاں اہل سنت و الجماعت کی مساجد نہیں ہیں ۔۔۔ شکریہ!
سائل: maniavai
جواب: وعلیکم السلام و رحمۃ اللہ و برکاتہ!
میرے سائل بھائی ۔۔۔ اگر صورت حال ایسی ہی ہے کہ جیسے آپ نے ذکر کی ہے کہ آپ کے ہاں مساجد نہیں۔
اور آپ کے اردگرد مساجد کے آئمہ رافضی (شیعہ) ہیں جبکہ رافضیوں کے پیچھے آپ کی نماز صحیح نہیں۔
مگر یہ کہ ان میں سے کسی ایسے شخص کو آپ جانتے ہوں کہ وہ رافضیوں کے “کفریہ عقائد” پر یقین نہیں رکھتا تو ایسے شخص کے پیچھے نماز کا حکم اہل بدعت کے پیچھے نماز والا ہوگا۔
لیکن دوسری صورت میں کہ جیسے رافضیوں کی حالت معروف ہے کہ وہ کفریہ عقائد کی طرف نسبت رکھتے ہیں۔
اس حال میں آپ کو چاہیئے کہ اپنے کسی ساتھی کے گھر یا فارم وغیرہ میں اکھٹے ہوں خواہ آپ لوگوں کا ایک چھوٹا سا گروپ ہی ہو۔ تو آپ میں سے ایک آدمی خطبہ دے اور جمعہ پڑھا ئے۔
اور اگر آپ لوگ رافضی حکومت کی پکڑ سے ڈرتے ہیں اور آپ اس کام کی استطاعت نہیں رکھتے تو اس صورت میں آپ میں سے ہر کوئی اپنے گھر میں جمعہ کے بجائے نماز ظہر ادا کرے گا۔
اور یہ نماز جمعہ کی شرطیں پوری نہ ہونے کی وجہ سے ہے۔ جن میں سے ایک شرط اجتماع ہے۔ گو کہ نمازجمعہ کی صحت کے لیئے شرط اجتماع کی تعداد میں فقہاء کے درمیان اختلاف ہے۔
اور بعض فقہاء کے نزدیک تو جمعہ کی رکعتوں کی تعداد تو دو ہی ہے حتی کہ اکیلے شخص کے لیئے بھی ۔مگر راجح قول پہلے والا ہے ( یعنی اگر اکیلا پڑھے تو چار رکعت ظہر کی پڑھے)۔ واللہ اعلم۔
اللہ آپ لوگوں کی مدد کرے اور آپ سے اس آزمائش کو دور کرے اور آپ کو اس مصیبت سے نکالے اور آپ لوگوں کے لیئے اپنی جانب سے کوئی ولی اور مددگار بھیجے۔
ابو اسامہ الشامی
عضو شرعی کمیٹی
منبر التوحید والجہاد ویب سائٹ
تاریخ اشاعت: ١٧-١٠-٢٠٠٩
جواب منجانب: منبر کی شرعی کمیٹی
سوال: السلام و علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ۔۔۔۔!
میں ایران کے صوبے “الاحواز” کا ایک عربی اہل سنت والجماعت میں سے ہوں۔ اور جیسا کہ آپ جانتے ہیں کہ ہم مظلوم ہیں ہمارے ہاں نہ تو مساجد ہیں اور نہ ہی علماء ۔۔۔۔۔۔۔
میرا سوال یہ ہے کہ ہمارے لیئے گھر میں نماز جمعہ پڑھنا جائز ہے؟ یہ جانتے ہوئے کہ یہاں اہل سنت و الجماعت کی مساجد نہیں ہیں ۔۔۔ شکریہ!
سائل: maniavai
جواب: وعلیکم السلام و رحمۃ اللہ و برکاتہ!
میرے سائل بھائی ۔۔۔ اگر صورت حال ایسی ہی ہے کہ جیسے آپ نے ذکر کی ہے کہ آپ کے ہاں مساجد نہیں۔
اور آپ کے اردگرد مساجد کے آئمہ رافضی (شیعہ) ہیں جبکہ رافضیوں کے پیچھے آپ کی نماز صحیح نہیں۔
مگر یہ کہ ان میں سے کسی ایسے شخص کو آپ جانتے ہوں کہ وہ رافضیوں کے “کفریہ عقائد” پر یقین نہیں رکھتا تو ایسے شخص کے پیچھے نماز کا حکم اہل بدعت کے پیچھے نماز والا ہوگا۔
لیکن دوسری صورت میں کہ جیسے رافضیوں کی حالت معروف ہے کہ وہ کفریہ عقائد کی طرف نسبت رکھتے ہیں۔
اس حال میں آپ کو چاہیئے کہ اپنے کسی ساتھی کے گھر یا فارم وغیرہ میں اکھٹے ہوں خواہ آپ لوگوں کا ایک چھوٹا سا گروپ ہی ہو۔ تو آپ میں سے ایک آدمی خطبہ دے اور جمعہ پڑھا ئے۔
اور اگر آپ لوگ رافضی حکومت کی پکڑ سے ڈرتے ہیں اور آپ اس کام کی استطاعت نہیں رکھتے تو اس صورت میں آپ میں سے ہر کوئی اپنے گھر میں جمعہ کے بجائے نماز ظہر ادا کرے گا۔
اور یہ نماز جمعہ کی شرطیں پوری نہ ہونے کی وجہ سے ہے۔ جن میں سے ایک شرط اجتماع ہے۔ گو کہ نمازجمعہ کی صحت کے لیئے شرط اجتماع کی تعداد میں فقہاء کے درمیان اختلاف ہے۔
اور بعض فقہاء کے نزدیک تو جمعہ کی رکعتوں کی تعداد تو دو ہی ہے حتی کہ اکیلے شخص کے لیئے بھی ۔مگر راجح قول پہلے والا ہے ( یعنی اگر اکیلا پڑھے تو چار رکعت ظہر کی پڑھے)۔ واللہ اعلم۔
اللہ آپ لوگوں کی مدد کرے اور آپ سے اس آزمائش کو دور کرے اور آپ کو اس مصیبت سے نکالے اور آپ لوگوں کے لیئے اپنی جانب سے کوئی ولی اور مددگار بھیجے۔
ابو اسامہ الشامی
عضو شرعی کمیٹی
منبر التوحید والجہاد ویب سائٹ