غزوات
غزوات میں ممتاز حیثیت سے شریک رہے،سب سے پہلے غزوۂ ٔبدر پیش آیا،حضرت زبیر ؓ نے اس معرکہ میں نہایت جانبازی ودلیری کے ساتھ حصہ لیا، جس طرف نکل جاتے تھے غنیم کی صفیں تہ وبالا کردیتے،ایک مشرک نے ایک بلند ٹیلے پر کھڑے ہوکر مبارزت چاہی، حضرت زبیر ؓ بڑھ کر اس سے لپٹ گئے،اور دونوں قلابازیاں کھاتے ہوئے نیچے آئے،آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ ان دونوں میں جو سب سے پہلے زمین پر رکے گا وہ مقتول ہوگا،چنانچہ ایسا ہی ہوا کہ وہ مشرک پہلے زمین پر گرکر حضرت زبیر ؓ کے ہاتھ سے واصلِ جہنم ہوا،(کنزالعمال:۶/۴۱۶) اسی طرح عبیدہ بن سعید سے مقابلہ پیش آیا جو سر سے پاؤں تک زرہ پہنےہوئے تھا،صرف دونوں آنکھیں کھلی ہوئی تھیں، حضرت زبیر ؓ نے تاک کر اس زور سے آنکھ میں نیزہ مارا کہ اس پارنکل گیا،اس کی لاش پر بیٹھ کر بمشکل نیزہ نکالا،پھل ٹیڑھا ہوگیا تھا، آنحضرت ﷺ نے بطوریادگار حضرت زبیر ؓ سے اس نیزہ کو لے لیا،اس کے بعد پھر خلفاء میں تبرکا ًمنتقل ہوتا رہا،یہاں تک خلیفہ ثالث ؓ کے بعد حضرت زبیر ؓ کے وارث حضرت عبداللہ ؓ کے پاس پہنچا اوران کی شہادت تک ان کے پاس موجودتھا۔
وہ جس بے جگری کے ساتھ بدرمیں لڑے اس کا اندازہ صرف اس سے ہوسکتا ہے کہ ان کی تلوار میں دندانے پڑگئے تھے،تمام جسم زخموں سے چھلنی ہوگیا تھا، خصوصاً ایک زخم اس قدر کاری تھا کہ وہاں پر ہمیشہ کے لیے گڑھا پڑگیا تھا، حضرت عروہ بن زبیر ؓ کا بیان ہے کہ ہم ان میں انگلیاں ڈال کر کھیلا کرتے تھے۔
(بخاری باب غزوۂ بدر)
معرکہ بدر میں حضرت زبیر ؓ زرد عمامہ باندھے ہوئے تھے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ آج ملائکہ بھی اسی وضع میں آئے ہیں،(کنز العمال :۶/۴۱۶) غرض مسلمانوں کی شجاعت وثابت قدمی نے میدان مارلیا حق غالب رہا اورباطل کو شکست ہوئی۔