اللہ پر توکل اور بھروسہ
دلہن نے گھر میں داخل ہوتے ہی تنقیدی نظروں سے گھر کا معائنہ کیا
چہرہ پر کسی قسم کا تاثر نہیں تھا
گھر کیا تھا
ایک کچی چہاردیواری تھی
جس میں کچی پکی اینٹوں کو جوڑ کر ایک چھوٹا سا کمرہ نما بنا لیا گیا
چھت کھجور کے پتوں کی تھی جس سے چھن چھن کر روشنی کمرے میں آرہی تھی
کمرے میں کوئی کھڑکی نہیں تھی
دیوار کو کاٹ کر کمرے کا ایک مدخل بنا لیا گیا تھا
کمرے کے فرش پر کھجور کے پتوں کا ایک گدّا بچھا ہوا تھا
گرہستی کے نام پر مٹی کی ایک ہنڈیا
ایک آبخورہ اور طاق پر ایک لکڑی کا پیالہ رکھا تھا
دلہن خاموشی سے بستر پر بیٹھ گئی. تھوڑی دیر میں دولھے میاں خشک روٹی کے کچھ ٹکڑے اور سالن لائے اور بیوی سے کہا آئیے پہلے کھانا کھالیں پھر باتیں ہوں گی عورت پہلی بار مسکرائی اور دستر خوان پر بیٹھ گئی.
دونوں اس طرح کھانے لگے جیسے
انواع و اقسام کے کھانے سامنے پڑے ہوں کھانے کے بعد دونوں نے اللّٰه کا شکر ادا جس نے انھیں بھوکا نہیں رکھا
دلہن کمرے سے باہر نکلی اور ٹہلنے لگی. طاق پر رکھے ہوئے پیالے کو ہاتھ میں لے کر غور سے دیکھا،اس کی سمجھ میں نہیں آیا کہ پیالے میں کیا ہے.
آخر شوہر سے دریافت کیا ،اس پیالے میں کیا ہے؟
شوہر کا چہرہ پھیکا پڑگیا دبی زبان میں کہا،
روٹی کے کچھ ٹکڑے ہیں.
پانی میں بھگو دیا ہے
صبح ہم دونوں کا ناشتہ ہو جائےگا
دلہن نے پیالےکو پٹک کر
اُسی طاق پر واپس رکھ دیا
آنکھوں کے شہابی ڈورے شرر بار ہوگئے
رخسار کے انار دہکنے لگے
آتش غضب سے جسم کی حدت بڑھ گئی
دولہا گھبرا گیا
پل بھر میں دلہن کی کیفیت کیوں بدل گئی
لرزتی ہوئی آواز میں پوچھا
کیا ہوا تم اتنا پریشان کیوں ہوگئیں؟
دلہن نے فیصلہ کن آواز میں کہا
میں آپ کے ساتھ نہیں رہ سکتی
مجھ کو میرے گھر پہنچا دیجئے
شوہر کی سمجھ میں کچھ نہیں آیا
اُس نے منت سماجت کرتے ہوئے کہا
ابھی تک تو آپ خوش تھیں
اچانک آپ کو کیا ہو گیا؟
کیا میں آپ کو پسند نہیں ؟
ایسی بات تھی تو نکاح سے پہلے آپ کو بتادینا چاھئے تھا دلہن نے نرمی سی کہا
ایسی کوئی بات نہیں
آپ تو مجھے دل و جان سے پسند ہیں
پھر میری غربت سے آپ گھبرا گئیں؟
میں نے تو پہلے ہی آپ کے والد سے کہہ دیا تھا کہ مال ومنال کے نام پر
میرے گھر میں اللّٰه کے نام کے علاوہ کچھ نہیں ہے
پھر بھی میں محنت کروں گا اور آپ کے نان و نفقہ کا انتظام کروں گا ان شاء اللّٰه
دلہن نے جواب دیا
آپ پتہ نہیں کیا کیا کہے جارہے ہیں
در اصل آپ کو اللّٰه پر بھروسہ
اور
توکل نہیں ہے
اور
جس شخص کا توکل اللّٰه پر نہ ہو
اُس کے ساتھ میں کیسے رہ سکتی ہوں؟
آپ نے میری کس بات سے اندازہ لگایا
کہ مجھے اللّٰه پر توکل نہیں ہے؟
شوہر نے کہا
دلہن بولی اگر اللّٰه پر توکل ہوتا
تو کل کی روزی کا انتظام
آج ہی کیوں کرتے؟
پیالے میں روٹی نہ بھگوتے
کیا آپ نے پڑھا نہیں ہے
وَمَن يَتَوَكَّلْ عَلَى اللَّهِ فَهُوَ حَسْبُهُ ۚ
اگر آپ چاہتے ہیں کہ میں آپ کے ساتھ رہوں
تو آپ ابھی اس پیالے کو لے جائیے
اور
کسی بھوکے کو کھلا دیجئیے
اللّٰه نے آج روزی دی ہے تو
بھروسہ رکھئے اللّٰه کل بھی دے گا
شوہر نے پیالہ کو ہاتھ میں لیا اور زارو قطار رونے لگا۔۔
اور ہم……
آؤ آج اپنے گریبان میں جھانک کر دیکھیں کیا ہمارا تقویٰ - توکل اِس سٹیج پر ہے؟
دلہن نے گھر میں داخل ہوتے ہی تنقیدی نظروں سے گھر کا معائنہ کیا
چہرہ پر کسی قسم کا تاثر نہیں تھا
گھر کیا تھا
ایک کچی چہاردیواری تھی
جس میں کچی پکی اینٹوں کو جوڑ کر ایک چھوٹا سا کمرہ نما بنا لیا گیا
چھت کھجور کے پتوں کی تھی جس سے چھن چھن کر روشنی کمرے میں آرہی تھی
کمرے میں کوئی کھڑکی نہیں تھی
دیوار کو کاٹ کر کمرے کا ایک مدخل بنا لیا گیا تھا
کمرے کے فرش پر کھجور کے پتوں کا ایک گدّا بچھا ہوا تھا
گرہستی کے نام پر مٹی کی ایک ہنڈیا
ایک آبخورہ اور طاق پر ایک لکڑی کا پیالہ رکھا تھا
دلہن خاموشی سے بستر پر بیٹھ گئی. تھوڑی دیر میں دولھے میاں خشک روٹی کے کچھ ٹکڑے اور سالن لائے اور بیوی سے کہا آئیے پہلے کھانا کھالیں پھر باتیں ہوں گی عورت پہلی بار مسکرائی اور دستر خوان پر بیٹھ گئی.
دونوں اس طرح کھانے لگے جیسے
انواع و اقسام کے کھانے سامنے پڑے ہوں کھانے کے بعد دونوں نے اللّٰه کا شکر ادا جس نے انھیں بھوکا نہیں رکھا
دلہن کمرے سے باہر نکلی اور ٹہلنے لگی. طاق پر رکھے ہوئے پیالے کو ہاتھ میں لے کر غور سے دیکھا،اس کی سمجھ میں نہیں آیا کہ پیالے میں کیا ہے.
آخر شوہر سے دریافت کیا ،اس پیالے میں کیا ہے؟
شوہر کا چہرہ پھیکا پڑگیا دبی زبان میں کہا،
روٹی کے کچھ ٹکڑے ہیں.
پانی میں بھگو دیا ہے
صبح ہم دونوں کا ناشتہ ہو جائےگا
دلہن نے پیالےکو پٹک کر
اُسی طاق پر واپس رکھ دیا
آنکھوں کے شہابی ڈورے شرر بار ہوگئے
رخسار کے انار دہکنے لگے
آتش غضب سے جسم کی حدت بڑھ گئی
دولہا گھبرا گیا
پل بھر میں دلہن کی کیفیت کیوں بدل گئی
لرزتی ہوئی آواز میں پوچھا
کیا ہوا تم اتنا پریشان کیوں ہوگئیں؟
دلہن نے فیصلہ کن آواز میں کہا
میں آپ کے ساتھ نہیں رہ سکتی
مجھ کو میرے گھر پہنچا دیجئے
شوہر کی سمجھ میں کچھ نہیں آیا
اُس نے منت سماجت کرتے ہوئے کہا
ابھی تک تو آپ خوش تھیں
اچانک آپ کو کیا ہو گیا؟
کیا میں آپ کو پسند نہیں ؟
ایسی بات تھی تو نکاح سے پہلے آپ کو بتادینا چاھئے تھا دلہن نے نرمی سی کہا
ایسی کوئی بات نہیں
آپ تو مجھے دل و جان سے پسند ہیں
پھر میری غربت سے آپ گھبرا گئیں؟
میں نے تو پہلے ہی آپ کے والد سے کہہ دیا تھا کہ مال ومنال کے نام پر
میرے گھر میں اللّٰه کے نام کے علاوہ کچھ نہیں ہے
پھر بھی میں محنت کروں گا اور آپ کے نان و نفقہ کا انتظام کروں گا ان شاء اللّٰه
دلہن نے جواب دیا
آپ پتہ نہیں کیا کیا کہے جارہے ہیں
در اصل آپ کو اللّٰه پر بھروسہ
اور
توکل نہیں ہے
اور
جس شخص کا توکل اللّٰه پر نہ ہو
اُس کے ساتھ میں کیسے رہ سکتی ہوں؟
آپ نے میری کس بات سے اندازہ لگایا
کہ مجھے اللّٰه پر توکل نہیں ہے؟
شوہر نے کہا
دلہن بولی اگر اللّٰه پر توکل ہوتا
تو کل کی روزی کا انتظام
آج ہی کیوں کرتے؟
پیالے میں روٹی نہ بھگوتے
کیا آپ نے پڑھا نہیں ہے
وَمَن يَتَوَكَّلْ عَلَى اللَّهِ فَهُوَ حَسْبُهُ ۚ
اگر آپ چاہتے ہیں کہ میں آپ کے ساتھ رہوں
تو آپ ابھی اس پیالے کو لے جائیے
اور
کسی بھوکے کو کھلا دیجئیے
اللّٰه نے آج روزی دی ہے تو
بھروسہ رکھئے اللّٰه کل بھی دے گا
شوہر نے پیالہ کو ہاتھ میں لیا اور زارو قطار رونے لگا۔۔
اور ہم……
آؤ آج اپنے گریبان میں جھانک کر دیکھیں کیا ہمارا تقویٰ - توکل اِس سٹیج پر ہے؟