kia Nimaaz Soorah-e-Fateha k beghair Poori Hojati hay?

  • Work-from-home

@sif @li

Newbie
Jun 24, 2011
33
4
0
40
jazakomullah Mr. encunter
yes,I agre, Behs nhi honi cahye, lykin islami information tu honi cahye, may sunni hanfi hon, may namaz parhta hon, mujeh itna ilm hona chye k may apni namaz pr mutmain hojaun,
agar may Ruku may imam k sath milta hon and hani maslak pr wo rakat mukamil samajta hon koi kahe ap ki namaz nahi hui , may Abu bakar R.A ka hawala don jo Mr. seviou n dia, wo kahe k is nabi Alihissalam n Abubakar ko mana kar dia Ayinda na karna Jesa Mr. seviou ne kaha tu m ka jawab dunga, mere pas ziada proof hone caheye,
behs nahi likin thora ilm tu hona cahye, thori information de den.
thnkyou, jazakomullah
 
  • Like
Reactions: ENCOUNTER-007

ENCOUNTER-007

Newbie
Feb 10, 2011
516
834
0
Medan e Jihad
jazakomullah Mr. encunter
yes,I agre, Behs nhi honi cahye, lykin islami information tu honi cahye, may sunni hanfi hon, may namaz parhta hon, mujeh itna ilm hona chye k may apni namaz pr mutmain hojaun,
agar may Ruku may imam k sath milta hon and hani maslak pr wo rakat mukamil samajta hon koi kahe ap ki namaz nahi hui , may Abu bakar R.A ka hawala don jo Mr. seviou n dia, wo kahe k is nabi Alihissalam n Abubakar ko mana kar dia Ayinda na karna Jesa Mr. seviou ne kaha tu m ka jawab dunga, mere pas ziada proof hone caheye,
behs nahi likin thora ilm tu hona cahye, thori information de den.
thnkyou, jazakomullah
آصف علی صاحب
السلام علیکم
آپ نے درست فرمایا، تھوڑی بہت معلومات لازمی ہونی چاہئے پہلے میرا بھی یہی خیال تھا کہ اختلاف سے ہٹ کر کچھ بنیادی باتیں پیش کروں،
لیکن میں نے مناسب اس لئے نہیں سمجھا کہ جو سوال ہے اس میں بنیادی دو چیزیں الگ الگ ہیں لیکن اسے آپس مین گڈ مڈ کر دیا گیا ہے جس سے ایک ابہام پیدا ہوا، اور دوستوں کے درمیان آپس میں جو بات ہوئی اس سے بھی میں نے اندازہ لگایا کہ اصل اختلاف کو سمجھا ہی نہیں گیا،
لہذا بہتر یہی سمجھا کے دوست بھی خاموش ہوگئے ہیں خاموشی میں ہی عافیت ہے۔ لیکن مجھے اس بات کا احساس ہے کے دوستوں کے ذہنوں میں اس مسئلے پر مثبت یا منفی پہلو ضرور نقش ہوا ہوگا۔ مسئلے کو واضح کر نا ضروری ہے۔
بہر حال میں اپنی آئندہ پوسٹ میں تھوڑی معلومات ضرور فراہم کروں گا جس کا بحث سے کوئی تعلق نہیں ہوگا۔ انشاء اللہ
دعاوں میں یاد رکھئے گا۔

 
  • Like
Reactions: Tariq Saeed

ENCOUNTER-007

Newbie
Feb 10, 2011
516
834
0
Medan e Jihad

بسم اللہ الرحمن الرحیم

مسئلہ قراۃ خلف امام
آصف بھائی میں اپنی پہلی پوسٹ میں وضاحت کرچکا ہوں کہ اس مسئلے میں اختلاف ضرور ہوا ہے لیکن نظریاتی اختلاف نہیں ہوا ، آپ جس ترتیب پر نماز پڑھ رہے ہیں اسی ترتیب پر جمہور کا سب سے بڑا اجماع چلا آرہا ہے، لہذا زیادہ سوچنے اور فکر مند ہونے کی ضرورت نہیں۔
۱۔ قراء ت خلاف امام اور مدرک رکوع ، یہ دونوں الگ الگ مسئلے ہیں ، ہاں ان کے درمیان ربط ضرور ہے ۔
رکوع میں امام کی اقتداء میں شامل ہوجانے سے اس رکعت کالوٹانا ضروری نہیں ، اسی پر چاروں آئمہ اربعہ امام اعظم ابو حنیفہ، امام مالک، امام شافعی اور امام احمد بن حنبل رحمہم اللہ کا اتفاق ہوا ہے اور جمہور کا اجماع اسی پر چلا آرہا ہے۔ لہذا رکوع والے مسئلے پر اختلاف نہیں ، ہاں اگر کسی نے اختلاف کیا ہے تو شاید وہ قراء ت خلف امام والی بنیاد پر کیا ہوگا۔ (واللہ اعلم) لیکن یہ اختلاف کوئی معنی نہیں رکھتا ۔
اگر کوئی مقتدی رکوع میں رکعت پالیتا ہے تو اسے لوٹانے کی ضرورت نہیں ، نماز درست ہے۔
۲۔ نماز تین طرح کی ہیں، منفرد کی نماز، امام کی نماز، مقتدی کی نماز،
منفرد اور امام کی نماز میں کوئی اختلاف نہیں، اختلاف مقتدی کی نماز پر ہے۔
فریق اول کا موقف ہے کہ امام کے پیچھے مقتدی پر بھی قراء ت واجب ہے۔
فریق ثانی کا موقف ہے کہ امام کی قراء ت ہی مقتدی کا وظیفہ ( قراء ت ) ہے ۔ لہذا قراء ت
ضروری نہیں۔
آئمہ اربعہ کا موقف:
امام ابو حنیفہ ؒ کے نزدیک امام کی اقتدا ء میں مقتدی پر قراٗت ضروری نہیں، نماز جہری ہو یا سری
امام مالکؒ کے نزدیک جہری نمازوں میں امام کی اقتداء میں مقتدی پر قراٗت ضروری نہیں ، لیکن سری نمازوں میں پڑھ سکتا ہے۔ ( امام مالک اس کے وجوب اور جواز کے قائل نہیں)
امام احمد بن حنبل ؒ کا اس مسئلے میں یہی مسلک ہے جو امام مالک کا ہے۔
امام شافعی ؒ کا موقف ان تینوں آئمہ سے مختلف ہے، امام شافعی مقتدی پر بھی قراء ت کو ضروری سمجھتے ہیں، لیکن ان کے اختلاف میں تھوڑا سا ابہام پایا جاتا ہے،
صحیح بخاری اور قرات خلف امام:
امام بخاری ؒ نے صحیح بخاری میں ایک باب میں تین روایات کو بیان فرمایا ہے جس مین سے پہلی روایت کا تعلق امام سے ہے اور تیسری روایت کا تعلق منفرد کی نماز سے ہے اور درمیان میں دوسری روایت یہی ہے جس پر طارق بھائی نے اپنے سوال کی بنیاد قائم کی۔
لا صلوٰۃ لمن لم یقراء بفاتحۃ الکتاب
نماز نہیں اس شخص کی جس نے نہیں پڑھی فاتحۃ الکتاب
اسی روایت پر امام بخاری ؒ نے اپنا موقف قائم کیا ہے، یہ موقف ان کی اپنی ذاتی رائے کی بنیاد پر ہے یا امام شافعیؒ کی پیروی میں،
لہذا جو قراء ت خلف امام کے قائل ہین ان لوگوں کی سب سے بڑی اور ٹھوس دلیل یہی روایت ہے۔
سب سے اہم بات تو یہ ہے کہ اس حدیث میں صراحت موجود نہیں ہے ، نہ اس میں مقتدی کا ذکر ہے نہ خلف امام کی قیدہے، اور نہ ہی مقتدی پر قراء ت کے وجوب یا جواز کی تشریح ہے۔
ہاں یہ بات ضرور ہے کہ اس کی تعبیر کے عموم سے فائدہ اٹھایا جاسکتا ہے اور مقتدی کو بھی اس میں داخل مانا جاسکتا ہے ، لیکن عموم سے فائدہ اٹھا کر کیا جانے والا استدلال نصوص فہمی کے اصول کے مطابق کمزور استدلال ہے۔
فریق ثانی حنفیہ کا موقف:
دوسری جانب جو لوگ قراء ت خلف امام کے قائل نہیں اور وہ امام کی قراء ت کو ہی مقتدی کا وظیفہ کہتے ہیں ان کے موقف میں سورۃ الاعراف ۲۰۴ اورصحابہ کرام سے کثیر تعداد میں صحیح اور حسن سند کے ساتھ روایات موجود ہین جن میں بڑی صراحت کے ساتھ مقتدی کو انصات (خاموش رہنے) کا حکم دیا گیا ہے ، یاامام کی قراء ت کو مقتدی کی قراء ت کافی قرار دیا گیا یا مقتدی کی قراء ت پر اظہار ناگواری کا ذکر ہے۔ قرآن کی آیت مبارکہ کے بعد چند احادیث مبارکہ پیش کی جارہی ہیں۔
واذ قریء القرآن فاستمعوالہ وانصتوا لعلکم ترحمون۔(سورۃ الاعراف ۲۰۴)
اور جب قرآن پڑھا جائے تو اس پر کان دھرو اور خاموش رہ تاکہ تم پر رحم کیا جائے۔
جمہور کی رائے یہ ہے کہ اس آیت کا شان نزول نماز ہی ہے۔
امام ابن کثیر نے مشہور صحابہ کرام جس میں حضرت عبد اللہ بن مسعود، حضرت ابو ہریرہ، حضرت ابن عباس اور حضرت عبداللہ بن مغفل رضی اللہ عنہم اور تابعین میں سے سعید بن جبیر، عطا بن ابی رباح، عبدالرحمن بن زید بن اسلم، ابراھیم نخعی، شعبی، حسن بصری، ابن شہاب زہری، مجاہد، قتادہ، اور عبید بن عمیر رحمہم اللہ کے ارشادات نقل کئے ہیں۔ ( تفسیر ابن کثیر ج ۲ ص ۲۸۰)
شیخ الاسلام حافظ ابن تیمیہ ؒ اپنے فتاوی میں فرماتے ہیں:
اور سلف سے استفاضہ و شہرت کے ساتھ منقول ہے کہ یہ آیت قراء ت فی الصلوٰۃ کے بارے میں نازل ہوئی ، اور بعض کا قول ہے کہ خطبہ کے بارے میں نازل ہوئی اور امام احمدؒ نے ذکر کیا ہے کہ اس پر اجماع ہے کہ نماز اور خطبہ کے بارے میں نازل ہوئی۔(فتاوی طبع قدیم ج ۲ ص ۱۴۳ ، طبع جدید ج ۲ ص ۲۶۹)
احادیث مبارکہ:
۱۔ حضرت موسی اشعری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ آنحضرت ﷺ ہمیں خطبہ فرمایا اور سنت کے مطابق زندگی بسر کرنے کی تلقین فرمائی اور نماز کا طریقہ بتلایا اور یہ فرمایا کہ نماز سے قبل اپنی صفوں کو درست کرلو، پھر تم میں سے ایک تمہارا امام بنے ، جب وہ تکبیر کہے تم بھی تکبیر کہو اور جب وہ قراء ت کرے تو تم خاموش رہو اور جب وہ غیر المغضوب علیہم ولا الضالین کہے تو تم آمین کہو۔
(صحیح مسلم ج ۱ص ۱۷۴، نسائی شریف ج ۱ ص ۱۴۶، ابوداود ص ۱۴۰، ابن ماجہ ص ۶۱ )
۲۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے ارشاد فرمایا ہے کہ امام اس لئے مقرر کیا جاتا ہے کہ اس کی اقتداء کی جائے سو جب وہ تکبیر کہے تو تم بھی تکبیر کہو اور جب امام قراء ت کرے تو تم خاموش رہو اور جب وہ سمع اللہ لمن حمدہ کہے تو تم اللھم ربنا لک الحمد کہو۔
(نسائی شریف ج ۱ ص ۱۰۶، مشکوٰہ شریف ج۱ ص ۸۱ ، طحاوی ص ۱۲۸ ، ابن ماجہ ۶۱)
۳۔ حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آنحضرت ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ جب امام قراۃ کرے تو تم خاموش رہو۔ ( کتاب القراء ص ۹۲)
۴۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آنحضرت ﷺ ایک جہری نماز پڑھا کر فارغ ہوئے تو فرمایا کہ کیا تم میں سے کسی نے میرے ساتھ پڑھا ہے ان میں سے ایک شخص بولا کہ جی ہاں یارسول اللہ ﷺ میں نے آپ کے ساتھ قراء ت کی ہے ، آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ جبھی تو میں (اپنے دل میں) کہہ رہا تھا کہ میرے ساتھ قرآن کی قراء ت میں منازعت اور کشمکش کیوں ہورہی ہے، حضور ﷺ کے اس ارشاد کے بعد صحابہ کرام رضوان اللہ عنہم اجمعین جہری نمازوں میں قراء ت کرنے سے رک گئے۔
(موطا امام مالک ص ۲۹، ابو داود شریف ج ۱ ص ۱۲۱، کتاب القراۃ ۱۱۷)
۵۔حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جس نے نماز پڑھی اور اس میں سورۃ فاتحہ نہیں پڑھی اس نے گویا نماز ہی نہیں پڑھی الا یہ کہ امام کے پیچھے ہو۔ ( ترمذی شریف ج ۱ ص ۴۲)
جناب آصف صاحب آپ کی معلومات کے لئے چند احدیث نقل کیں ہیں، اس موضوع کافی تعداد میں احدیث کا ذخیرہ موجود ہے اور ساتھ صحابہ کرام، تابعین اور تبعہ تابعین کے اقوال اور فتاوہ بھی موجود ہیں لیکن فی الوقت اطمنان کے لئے اتنا ہی کافی ہے،
ایک باطل مفہوم کی وضاحت:
ہمارے محترم سیویو بھائی نے حنفیہ کے موقف پر ابو بکرہ رضی اللہ عنہ کی ایک روایت بیان فرمائی ہے جس مین حنفیہ کے موقف کی بہترین ترجمانی ہے لیکن سیویو بھائی نے اس حدیث پر ایک باطل مفہوم بیان کرکے بڑی ناانصافی کی ہے، میں یقینی طور پر کہتا ہوں کہ یہ مفہوم سیویو بھائی نے خود سے بیان نہین کیا بلکہ کسی کتاب سے نقل کیا ہے، اور یہ بھی سمجھتا ہوں کہ نقل کرنے سے پہلے اسے سمجھا نہیں گیا ، اس لئے نقل کرنے میں تصامح ہوا ہے۔
اگر یہ مفہوم کسی بدعتی نے بیان کیا ہوتا تو ہماری طرف سے اس پر شرک کا فتوی داغ دیا گیا ہوتا، اور اس سے یہی مطالبہ ہوتا کہ وہ قرآن و سنت سے اس مفہوم کو ثابت کرے۔
نماز اللہ تعالی کا حکم ہے ، اور یہ ایک ایسا فریضہ ہے جو کسی صورت معاف نہیں( سوائے ان کے جنہیں استثنیٰ حاصل ہیں) اگر وقت نکل جائے قضاء بھی پڑھنا ہے لیکن معاف نہیں ہے۔
اسی کی روشنی میں فریق اول کا موقف ہے کہ رکوع میں شامل ہونے کے بعد بھی اسے وہ رکعت لوٹانی پڑے گی، لہذا لہذا فریق اول کے اس موقف کی بنیاد پر ابو بکرہ رضی اللہ عنہ کو یقیناً نماز کے بعد رکعت لوٹانی تھی لیکن انہوں نے نہیں لوٹائی اگر ان کی نماز نہیں ہوئی فریق اول کے موقف کی بنیاد پر تو رسول اللہ ﷺ کو یہ حکم دینا تھا کہ ابو بکرہ اپنی نماز مکمل کرو یعنی دوبارہ لوٹاؤ، لیکن بقول سیویو بھائی کے مفہوم کے مطابق اتنا ارشاد فرمایا ہے آئندہ ایسا نہیں کرنا، یہ حکم نماز کے متعلق کب سے ہوگیا؟
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایک رسول کو اختیار ہے کہ وہ کسی کی نماز معاف کردے، اگر آپ کا یہ مفہوم تسلیم کر لیا جائے تو یہ بات ہمارے عقیدہ کے سراسر منافی ہوگا۔
اس حدیث میں بالکل صاف ، واضح اور صراحت کے ساتھ دو باتیں موجود ہیں کوئی پیچیدگی والا معاملہ نہیں ، کوئی ابہام نہیں،
یہ تو آپ جانتے ہیں کے صحابہ مین نیکی کا کیا جزبہ تھا اور عبادات میں اور نیکی میں کتنی حرس تھی کہ ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوششکرتے تھے، اور بات جب نماز کی ہو اور نماز میں امام الانبیاء ﷺ کی ہو تو کیسے برداشت ہوسکتا ہے کہ ایک رکعت بھی چلی جائے اور اس کی فضیلت اور نیکی سے محروم ہونا پڑے ، لہذا ابو بکرہ اگر اس حرص کی وجہ سے جلدی جلدی آتے ہیں اور نماز میں شریک ہوجاتے ہیں تو اسی پر امام الانبیاء ﷺ ان کو داد تحسین پیش کرتے ہین لیکن کیونکہ جلدی آنا یا دور کر آنا یہ مسجد کے آداب کے خلاف ہے اس وجہ سے تنبہیہ فرمائی کے آئندہ ایسا نہ کرنا، یعنی آئندہ مسجد کے آداب کا خیال رکھنا، کتنا صاف اور واضح مطلب ہے کہ ہمارے ایک بھائی نیو وولف بھی بڑی آسانی سے سمجھ گئے اور آپ نہ سمجھ پائے۔ میرے بھائی احادیث کے معاملے مین احتاط لازمی ہونی چاہئے یعنی اپنی کوشش کی حد تک ، باقی ہم بھی انسان ہی ہیں غلطی ظاہر ہے ہم سے ہی ہونی ہے،
آپ سے درخواست ہے آپ ضرور اس مفہوم پر غور فرمائے گا۔
اللہ تعالی ہمیں وہ علم عطا فرمائے جو نافع ہو اور اس میں خواہشات نفس کی ملاوٹ نہ ہو۔
ولالسام ریحان تقدیس
 

Atif-adi

-{عادي}-{Adi}-
VIP
Oct 1, 2009
34,469
21,486
1,313
Sharjah, U.A.E
JAZAK ALLAH KHER NASIR BHAi n TARi bhai bht eham sawal kia hai ap ne :)
knowledge me izafa hogaya,
humare yaha bhi mualana sahab se pocha to unhu ne kaha tha k hojati hai per dohrali jae wo rakat to better hai ...
 

@sif @li

Newbie
Jun 24, 2011
33
4
0
40

بسم اللہ الرحمن الرحیم

مسئلہ قراۃ خلف امام
آصف بھائی میں اپنی پہلی پوسٹ میں وضاحت کرچکا ہوں کہ اس مسئلے میں اختلاف ضرور ہوا ہے لیکن نظریاتی اختلاف نہیں ہوا ، آپ جس ترتیب پر نماز پڑھ رہے ہیں اسی ترتیب پر جمہور کا سب سے بڑا اجماع چلا آرہا ہے، لہذا زیادہ سوچنے اور فکر مند ہونے کی ضرورت نہیں۔
۱۔ قراء ت خلاف امام اور مدرک رکوع ، یہ دونوں الگ الگ مسئلے ہیں ، ہاں ان کے درمیان ربط ضرور ہے ۔
رکوع میں امام کی اقتداء میں شامل ہوجانے سے اس رکعت کالوٹانا ضروری نہیں ، اسی پر چاروں آئمہ اربعہ امام اعظم ابو حنیفہ، امام مالک، امام شافعی اور امام احمد بن حنبل رحمہم اللہ کا اتفاق ہوا ہے اور جمہور کا اجماع اسی پر چلا آرہا ہے۔ لہذا رکوع والے مسئلے پر اختلاف نہیں ، ہاں اگر کسی نے اختلاف کیا ہے تو شاید وہ قراء ت خلف امام والی بنیاد پر کیا ہوگا۔ (واللہ اعلم) لیکن یہ اختلاف کوئی معنی نہیں رکھتا ۔
اگر کوئی مقتدی رکوع میں رکعت پالیتا ہے تو اسے لوٹانے کی ضرورت نہیں ، نماز درست ہے۔
۲۔ نماز تین طرح کی ہیں، منفرد کی نماز، امام کی نماز، مقتدی کی نماز،
منفرد اور امام کی نماز میں کوئی اختلاف نہیں، اختلاف مقتدی کی نماز پر ہے۔
فریق اول کا موقف ہے کہ امام کے پیچھے مقتدی پر بھی قراء ت واجب ہے۔
فریق ثانی کا موقف ہے کہ امام کی قراء ت ہی مقتدی کا وظیفہ ( قراء ت ) ہے ۔ لہذا قراء ت
ضروری نہیں۔
آئمہ اربعہ کا موقف:
امام ابو حنیفہ ؒ کے نزدیک امام کی اقتدا ء میں مقتدی پر قراٗت ضروری نہیں، نماز جہری ہو یا سری
امام مالکؒ کے نزدیک جہری نمازوں میں امام کی اقتداء میں مقتدی پر قراٗت ضروری نہیں ، لیکن سری نمازوں میں پڑھ سکتا ہے۔ ( امام مالک اس کے وجوب اور جواز کے قائل نہیں)
امام احمد بن حنبل ؒ کا اس مسئلے میں یہی مسلک ہے جو امام مالک کا ہے۔
امام شافعی ؒ کا موقف ان تینوں آئمہ سے مختلف ہے، امام شافعی مقتدی پر بھی قراء ت کو ضروری سمجھتے ہیں، لیکن ان کے اختلاف میں تھوڑا سا ابہام پایا جاتا ہے،
صحیح بخاری اور قرات خلف امام:
امام بخاری ؒ نے صحیح بخاری میں ایک باب میں تین روایات کو بیان فرمایا ہے جس مین سے پہلی روایت کا تعلق امام سے ہے اور تیسری روایت کا تعلق منفرد کی نماز سے ہے اور درمیان میں دوسری روایت یہی ہے جس پر طارق بھائی نے اپنے سوال کی بنیاد قائم کی۔
لا صلوٰۃ لمن لم یقراء بفاتحۃ الکتاب
نماز نہیں اس شخص کی جس نے نہیں پڑھی فاتحۃ الکتاب
اسی روایت پر امام بخاری ؒ نے اپنا موقف قائم کیا ہے، یہ موقف ان کی اپنی ذاتی رائے کی بنیاد پر ہے یا امام شافعیؒ کی پیروی میں،
لہذا جو قراء ت خلف امام کے قائل ہین ان لوگوں کی سب سے بڑی اور ٹھوس دلیل یہی روایت ہے۔
سب سے اہم بات تو یہ ہے کہ اس حدیث میں صراحت موجود نہیں ہے ، نہ اس میں مقتدی کا ذکر ہے نہ خلف امام کی قیدہے، اور نہ ہی مقتدی پر قراء ت کے وجوب یا جواز کی تشریح ہے۔
ہاں یہ بات ضرور ہے کہ اس کی تعبیر کے عموم سے فائدہ اٹھایا جاسکتا ہے اور مقتدی کو بھی اس میں داخل مانا جاسکتا ہے ، لیکن عموم سے فائدہ اٹھا کر کیا جانے والا استدلال نصوص فہمی کے اصول کے مطابق کمزور استدلال ہے۔
فریق ثانی حنفیہ کا موقف:
دوسری جانب جو لوگ قراء ت خلف امام کے قائل نہیں اور وہ امام کی قراء ت کو ہی مقتدی کا وظیفہ کہتے ہیں ان کے موقف میں سورۃ الاعراف ۲۰۴ اورصحابہ کرام سے کثیر تعداد میں صحیح اور حسن سند کے ساتھ روایات موجود ہین جن میں بڑی صراحت کے ساتھ مقتدی کو انصات (خاموش رہنے) کا حکم دیا گیا ہے ، یاامام کی قراء ت کو مقتدی کی قراء ت کافی قرار دیا گیا یا مقتدی کی قراء ت پر اظہار ناگواری کا ذکر ہے۔ قرآن کی آیت مبارکہ کے بعد چند احادیث مبارکہ پیش کی جارہی ہیں۔
واذ قریء القرآن فاستمعوالہ وانصتوا لعلکم ترحمون۔(سورۃ الاعراف ۲۰۴)
اور جب قرآن پڑھا جائے تو اس پر کان دھرو اور خاموش رہ تاکہ تم پر رحم کیا جائے۔
جمہور کی رائے یہ ہے کہ اس آیت کا شان نزول نماز ہی ہے۔
امام ابن کثیر نے مشہور صحابہ کرام جس میں حضرت عبد اللہ بن مسعود، حضرت ابو ہریرہ، حضرت ابن عباس اور حضرت عبداللہ بن مغفل رضی اللہ عنہم اور تابعین میں سے سعید بن جبیر، عطا بن ابی رباح، عبدالرحمن بن زید بن اسلم، ابراھیم نخعی، شعبی، حسن بصری، ابن شہاب زہری، مجاہد، قتادہ، اور عبید بن عمیر رحمہم اللہ کے ارشادات نقل کئے ہیں۔ ( تفسیر ابن کثیر ج ۲ ص ۲۸۰)
شیخ الاسلام حافظ ابن تیمیہ ؒ اپنے فتاوی میں فرماتے ہیں:
اور سلف سے استفاضہ و شہرت کے ساتھ منقول ہے کہ یہ آیت قراء ت فی الصلوٰۃ کے بارے میں نازل ہوئی ، اور بعض کا قول ہے کہ خطبہ کے بارے میں نازل ہوئی اور امام احمدؒ نے ذکر کیا ہے کہ اس پر اجماع ہے کہ نماز اور خطبہ کے بارے میں نازل ہوئی۔(فتاوی طبع قدیم ج ۲ ص ۱۴۳ ، طبع جدید ج ۲ ص ۲۶۹)
احادیث مبارکہ:
۱۔ حضرت موسی اشعری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ آنحضرت ﷺ ہمیں خطبہ فرمایا اور سنت کے مطابق زندگی بسر کرنے کی تلقین فرمائی اور نماز کا طریقہ بتلایا اور یہ فرمایا کہ نماز سے قبل اپنی صفوں کو درست کرلو، پھر تم میں سے ایک تمہارا امام بنے ، جب وہ تکبیر کہے تم بھی تکبیر کہو اور جب وہ قراء ت کرے تو تم خاموش رہو اور جب وہ غیر المغضوب علیہم ولا الضالین کہے تو تم آمین کہو۔
(صحیح مسلم ج ۱ص ۱۷۴، نسائی شریف ج ۱ ص ۱۴۶، ابوداود ص ۱۴۰، ابن ماجہ ص ۶۱ )
۲۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے ارشاد فرمایا ہے کہ امام اس لئے مقرر کیا جاتا ہے کہ اس کی اقتداء کی جائے سو جب وہ تکبیر کہے تو تم بھی تکبیر کہو اور جب امام قراء ت کرے تو تم خاموش رہو اور جب وہ سمع اللہ لمن حمدہ کہے تو تم اللھم ربنا لک الحمد کہو۔
(نسائی شریف ج ۱ ص ۱۰۶، مشکوٰہ شریف ج۱ ص ۸۱ ، طحاوی ص ۱۲۸ ، ابن ماجہ ۶۱)
۳۔ حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آنحضرت ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ جب امام قراۃ کرے تو تم خاموش رہو۔ ( کتاب القراء ص ۹۲)
۴۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آنحضرت ﷺ ایک جہری نماز پڑھا کر فارغ ہوئے تو فرمایا کہ کیا تم میں سے کسی نے میرے ساتھ پڑھا ہے ان میں سے ایک شخص بولا کہ جی ہاں یارسول اللہ ﷺ میں نے آپ کے ساتھ قراء ت کی ہے ، آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ جبھی تو میں (اپنے دل میں) کہہ رہا تھا کہ میرے ساتھ قرآن کی قراء ت میں منازعت اور کشمکش کیوں ہورہی ہے، حضور ﷺ کے اس ارشاد کے بعد صحابہ کرام رضوان اللہ عنہم اجمعین جہری نمازوں میں قراء ت کرنے سے رک گئے۔
(موطا امام مالک ص ۲۹، ابو داود شریف ج ۱ ص ۱۲۱، کتاب القراۃ ۱۱۷)
۵۔حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جس نے نماز پڑھی اور اس میں سورۃ فاتحہ نہیں پڑھی اس نے گویا نماز ہی نہیں پڑھی الا یہ کہ امام کے پیچھے ہو۔ ( ترمذی شریف ج ۱ ص ۴۲)
جناب آصف صاحب آپ کی معلومات کے لئے چند احدیث نقل کیں ہیں، اس موضوع کافی تعداد میں احدیث کا ذخیرہ موجود ہے اور ساتھ صحابہ کرام، تابعین اور تبعہ تابعین کے اقوال اور فتاوہ بھی موجود ہیں لیکن فی الوقت اطمنان کے لئے اتنا ہی کافی ہے،
ایک باطل مفہوم کی وضاحت:
ہمارے محترم سیویو بھائی نے حنفیہ کے موقف پر ابو بکرہ رضی اللہ عنہ کی ایک روایت بیان فرمائی ہے جس مین حنفیہ کے موقف کی بہترین ترجمانی ہے لیکن سیویو بھائی نے اس حدیث پر ایک باطل مفہوم بیان کرکے بڑی ناانصافی کی ہے، میں یقینی طور پر کہتا ہوں کہ یہ مفہوم سیویو بھائی نے خود سے بیان نہین کیا بلکہ کسی کتاب سے نقل کیا ہے، اور یہ بھی سمجھتا ہوں کہ نقل کرنے سے پہلے اسے سمجھا نہیں گیا ، اس لئے نقل کرنے میں تصامح ہوا ہے۔
اگر یہ مفہوم کسی بدعتی نے بیان کیا ہوتا تو ہماری طرف سے اس پر شرک کا فتوی داغ دیا گیا ہوتا، اور اس سے یہی مطالبہ ہوتا کہ وہ قرآن و سنت سے اس مفہوم کو ثابت کرے۔
نماز اللہ تعالی کا حکم ہے ، اور یہ ایک ایسا فریضہ ہے جو کسی صورت معاف نہیں( سوائے ان کے جنہیں استثنیٰ حاصل ہیں) اگر وقت نکل جائے قضاء بھی پڑھنا ہے لیکن معاف نہیں ہے۔
اسی کی روشنی میں فریق اول کا موقف ہے کہ رکوع میں شامل ہونے کے بعد بھی اسے وہ رکعت لوٹانی پڑے گی، لہذا لہذا فریق اول کے اس موقف کی بنیاد پر ابو بکرہ رضی اللہ عنہ کو یقیناً نماز کے بعد رکعت لوٹانی تھی لیکن انہوں نے نہیں لوٹائی اگر ان کی نماز نہیں ہوئی فریق اول کے موقف کی بنیاد پر تو رسول اللہ ﷺ کو یہ حکم دینا تھا کہ ابو بکرہ اپنی نماز مکمل کرو یعنی دوبارہ لوٹاؤ، لیکن بقول سیویو بھائی کے مفہوم کے مطابق اتنا ارشاد فرمایا ہے آئندہ ایسا نہیں کرنا، یہ حکم نماز کے متعلق کب سے ہوگیا؟
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایک رسول کو اختیار ہے کہ وہ کسی کی نماز معاف کردے، اگر آپ کا یہ مفہوم تسلیم کر لیا جائے تو یہ بات ہمارے عقیدہ کے سراسر منافی ہوگا۔
اس حدیث میں بالکل صاف ، واضح اور صراحت کے ساتھ دو باتیں موجود ہیں کوئی پیچیدگی والا معاملہ نہیں ، کوئی ابہام نہیں،
یہ تو آپ جانتے ہیں کے صحابہ مین نیکی کا کیا جزبہ تھا اور عبادات میں اور نیکی میں کتنی حرس تھی کہ ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوششکرتے تھے، اور بات جب نماز کی ہو اور نماز میں امام الانبیاء ﷺ کی ہو تو کیسے برداشت ہوسکتا ہے کہ ایک رکعت بھی چلی جائے اور اس کی فضیلت اور نیکی سے محروم ہونا پڑے ، لہذا ابو بکرہ اگر اس حرص کی وجہ سے جلدی جلدی آتے ہیں اور نماز میں شریک ہوجاتے ہیں تو اسی پر امام الانبیاء ﷺ ان کو داد تحسین پیش کرتے ہین لیکن کیونکہ جلدی آنا یا دور کر آنا یہ مسجد کے آداب کے خلاف ہے اس وجہ سے تنبہیہ فرمائی کے آئندہ ایسا نہ کرنا، یعنی آئندہ مسجد کے آداب کا خیال رکھنا، کتنا صاف اور واضح مطلب ہے کہ ہمارے ایک بھائی نیو وولف بھی بڑی آسانی سے سمجھ گئے اور آپ نہ سمجھ پائے۔ میرے بھائی احادیث کے معاملے مین احتاط لازمی ہونی چاہئے یعنی اپنی کوشش کی حد تک ، باقی ہم بھی انسان ہی ہیں غلطی ظاہر ہے ہم سے ہی ہونی ہے،
آپ سے درخواست ہے آپ ضرور اس مفہوم پر غور فرمائے گا۔
اللہ تعالی ہمیں وہ علم عطا فرمائے جو نافع ہو اور اس میں خواہشات نفس کی ملاوٹ نہ ہو۔
ولالسام ریحان تقدیس
Nice information
Thank you very much for your kind response,
 

ShahzadFaiz

TM Star
Jul 25, 2010
1,319
324
783
45
Multan, PK
ye sorah fateh tafseer k links hain, iss se sabse pehle tu sorah fateh ki ahmiat ka andazaa hojaega., then tafseer k pages k last main reference dye gaye hain wo refferences ahaadiss k hein wo study karein. agar ahadith ki book avail na ho tu pm kr un k link b mngwa sakte hain.
 

ENCOUNTER-007

Newbie
Feb 10, 2011
516
834
0
Medan e Jihad


شہزاد بھائی
السلام علیکم
مجھے بہت دکھ اور افسوس ہواجب آپ کے علم میں یہ بات ہے کہ اس موضوع پر دو فریقین کے درمیان ایک بحث متعین ہے اور میں بار بار درخواست کررہا ہوں کہ جو بھی دلائل ہوں وہ جمع کریں اور اپنے فریق کو مہیا کردیں تاکہ جب بحث کا آغاز ہو تو ترتیب سے ان دلائل کا ذکر ہو۔
میں نے یہ بحث دوفریقین کے درمیان کیوں منتخب کی ہے، اس کی وجہ ہے۔
۱۔ یہ ایک علمی مسئلہ ہے اگر اسے عام ٹھریڈ میں بیان کردیا جائے اور اس پر بحث شروع ہوجئے تو ہر بندہ اپنی اپنی بات رکھے گا اور فتنہ کا بھی اندیشہ ہے، مسئلہ میں الجھن بھی پیدا ہوگی، اور اس کا کوئی مثبت نتیجہ بھی نہیں نکلے گا بلکہ نتیجہ منفی ہی ہوگا۔اور کوئی دوست اس علم سے فائدہ نہیں اٹھا سکے گا۔
لہذا جب اس پر ایک ترتیب اور اصولوں پر بات ہوگی تو نہ جھگڑا ہوگا، نہ انتشار پیدا ہوگا، اور دوستوں کو مسئلہ سمجھ میں بھی آئے گا۔
اب آپ بتائیں آپ کیا چاہتے ہیں، آپ مسئلہ سلجھانا چاہتے ہیں یا اس میں عام بحث شروع کرنا چاہتے ہیں
دانشمندی کا تقاضہ یہی ہے کہ اس موضوع پر ترتیب سے بات ہو ، تاکہ ہمارا مسئلہ حل ہو اور لوگوں کو سمجھ آئے۔
دوسری بات یہ ہے کہ سورۃ الفاتحہ کی اہمیت اور افادیت اپنی جگہ ہے اس سے کسی کو انکار نہیں ہوسکتا۔ لیکن مسئلہ کو شریعت کے اصولوں سے حل کیا جاتا ہے۔ اگر میں یہ کہوں کہ سورۃ یاسین کی بڑی اہمیت ہے لہذا اسے سورۃ الفاتحہ کی جگہ پڑھی جائے ، اسے رکوع اور سجدہ میں بھی پڑھی جائے تو آپ اس کی اہمیت کو دیکھیں گے یا مسئلے کو، مسائل کا بنیادی تعلق شریعت کے اصولوں سے ہیں۔
آپ کا ماشاء اللہ دینی علوم کے ساتھ کافی شغف معلوم ہوتا ہے اللہ تعالی مزید برکت عطا فرمائے۔
میری خواہش ہے ہمارا مسلہ منتشر نہ ہو بلکہ اس انداز سے پیش کیا جائے کہ لوگ بآسانی سمجھ سکے اور اس کا واحد حل دو فریقین کے درمیان اصولوں اور ترتیب سے بحث پر ہے۔
آپ سے دعاوں کی درخواست ہے
 
Top