بسم اللہ الرحمن الرحیم
السلام علیکم ورحمتہ اللہ !
اوپر پیش کی گئی وضاحت میں کچھ ایڈیٹنگ باقی تھی لیکن بجلی فیل ہوجانے کی وجہ سے وہ ادھوری رہ گئی اور جب بجلی آئی تو انتظامیہ کی طرف سے ایڈیٹنگ کے لئے مقرر کئے ہوئے دو گھنٹے گذر چکے تھے اس لئے ہم ایڈیٹ نہ کرسکے
اب ہم یہ نئی پوسٹ کررہے ہیں اور ساتھیوں سے درخواست ہے اسی پوسٹ کو فائنل سمجھیں اور اگر ممکن ہو تو موڈریٹر ہماری پچھلی پوسٹ کو ڈیلیٹ کردیں .جزاک اللہ
محترم جناب ناصر بھائی جیسا کہ آپ نے یہ آیت مبارکہ پیش فرمائی
لاَ يُكَلِّفُ اللّهُ نَفْساً إِلاَّ وُسْعَهَا لَهَا مَا كَسَبَتْ وَعَلَيْهَا مَا اكْتَسَبَتْ الخ البقرۃ 286
ترجمہ :الله کسی کو اس کی طاقت کے سوا تکلیف نہیں دیتا نیکی کا فائدہ بھی اسی کو ہو گا اور برائی کی زد بھی اسی پر پڑے گی
اور جیسا کہ کچھ حضرات "انسان کی اپنی کوشش اور سعی کے علاوہ دوسروں کے عمل سے" میت کو ایصال ثواب پہنچنے کی نفی میں یہ آیت مبارکہ پیش فرماتے ہیں
وَأَن لَّيْسَ لِلْإِنسَانِ إِلَّا مَا سَعَىٰ الخ سورہ النجم 39 پارہ 27
ترجمہ :انسان کے لئے بس وہی ہے جو اس نے سعی کی اور کمایا
ان آیات مبارکہ سے استدلال یہ ہوتا ہے کہ ہر انسان کو اپنی کوشش یا سعی کے سوا کچھ نہیں حاصل ہوتا .... اور اس طرح کسی دوسرے انسان کا عمل کسی شخص کو فائدہ نہیں پہنچاسکتا ??
اس آیت مبارکہ پر معمولی غور و فکر سے کام لیا جائے تو یہ غلط فہمی دور ہوسکتی ہے ۔۔۔
یہاں غور کرنے کی بات یہ ہے کہ اس آیت میں ”انسان“ پر جو ”ل“ ہے یہ آیا ملکیت کے لئے ہے یا انتفاع کے لئے ؟
پہلی صورت میں آیت کا مطلب اور مفاد یہ ہوگا کہ ”انسان اپنی ہی سعی و محنت اور اپنی ہی کمائی کا مالک ہے ۔۔دوسروں کی محنت اور کمائی کا وہ مالک نہیں ۔۔۔
اس میں کسی کو اختلاف نہیں بلکہ نظریہ ”ایصال ثواب “کی بنیاد ہی اس پر ہے کہ انسان چونکہ اپنی سعی و عمل کا مالک و مختار ہے اس لئے اس کو حق ہے کہ وہ اپنی چیز دوسرے کو ہدیہ کردے ۔۔۔بہرحال اس آیت میں ”ل“ اگر ملکیت کا مانا جائے تو یہ آیت مسئلہ ایصال ثواب کے لئے مخالف نہیں بلکہ کچھ موافق ہی ہوگی۔
اور اہل علم کو معلوم ہے کہ ”ل“ کا استعمال زیادہ تر ملکیت ہی کے لئے ہوتا ہے۔اور قرآن مجید میں اس کا بیشتر استعمال اسی معنی میں ہوا ہے ۔
اور اگر دوسری صورت اختیار کی جائے یعنی ”ل“ کا انتفاع کے لئے لیا جائے تو آیت کا مطلب اور مفاد یہ ہوگا کہ ”انسان کو اپنی ہی سعی و محنت سے نفع ہوتا ہے اور اس کی اپنی ہی کمائی اس کے کام آتی ہے “
پھر اس صورت میں یہ ماننا پڑے گا کہ یہ ”حصر“ محض اضافی اورعرفی ہے ۔۔۔منطقی قسم کا حصر کلی نہیں ہے اور آیت کا مطلب یہ نہیں کہ انسان کو اپنے ذاتی عمل کے سوا کسی دوسری چیز سے مطلقا کوئی نفع ہوہی نہیں سکتا ۔۔کیوں کہ یہ بات ازروئے قرآن اور ازروئے مشاہدہ دنیا کے لحاظ سے بھی غلط ہے ۔۔۔اور آخرت کے لحاظ سے بھی ۔۔۔۔
ہم دیکھتے ہیں کہ ایک شخص محنت کرکے کماتا ہے اور بہت سوں کو کھلاتا ہے ۔۔۔صدقہ خیرات کرتا ہے ،ہدیے دیتا ہے ۔۔۔علیٰ ہذا قرآن بتلاتا ہے کہ ایک شخص مر جائے تو اس کے کمائے ہوئے مال و دولت سے اتنا ماں کو ،باپ کو اور اتنا بیٹے اور بیٹیوں کو ملے گا ۔۔۔اہل علم جانتے ہیں کہ احکام قرآنی سے اور بھی اس کی دسیوں ،بیسیوں نظیریں نکالی جاسکتی ہیں ۔
علیٰ ہذا آخرت کے متعلق بھی قرآن پاک سے معلوم ہوتا ہے کہ اپنے نیک اعمال کے علاوہ اللہ تعالیٰ کی خاص رحمت اور اس کے فضل و کرم سے بھی بہت سوں کوبہت کچھ ملے گا ۔نیز باذن اللہ شفاعت کا نافع ہونا بھی قرآن مجید ہی سے ثابت ہے ،علیٰ ہذا انبیاءکرام و صالحین اور ملائکہ مقربین کا اہل ایمان کے لئے مغفرت و رحمت کی دعائیں کرنا بلکہ خود اللہ پاک کا اس دعا و استغفار کے لئے حکم دینا بھی قرآن پاک ہی سے ثابت ہے ۔۔۔اور ظاہر ہے کہ یہ دعائیں لغو و بے کار نہیں جائیں گی ۔بلکہ اللہ پاک کے یہاں قبول ہو کر ان اہل ایمان کی مغفرت و رحمت اور رفعت درجات کا ذریعہ بنیں گی
اور یہ حقیقت ناقابل انکار ہے کہ اللہ پاک کا یہ رحم و کرم اور اعمال کی نپی تلی جزا کے علاوہ محض اپنے فض و کرم سے کچھ اور انعامات سے نوازنا بندہ کی اپنی سعی اور اپنی کمائی نہیں ہے بلکہ اللہ پاک کا فعل ہے ۔۔۔۔
اسی طرح آخرت میں مقربین کی شفاعت اور اس دنیا میں زندہ لوگوں کا دعا و استغفار کرنا یہ بھی دوسروں کا ہی فعل ہے اور ان سب سے نفع پہنچنا نصوص قرآن سے ثابت ہے ۔
پس یہ کلیہ کہ کسی انسان کو اپنی سعی و محنت کے علاوہ کسی دوسری چیز سے کوئی نفع نہیں پہنچتا نیا کے لحاظ سے بھی اور آخرت کے حق میں بھی ازروئے قرآن غلط ثابت ہوا ۔
لہٰذا ”ل“ کو اگر انتفاع کے لئے مانا جائے تو لامحالہ ماننا پڑے گا کہ آیت میں جو حصر کیا گیا ہے یہ منطقی قسم کا حصر کلی نہیں بلکہ یہ حصر اضافی اور عرفی ہے ۔یعنی آیت کا مقصد انسان کی اپنی سعی کے علاوہ جمیع ماسوی کی نافعیت کی نفی کرنا نہیں ہے ۔۔
۔
بلکہ خاص طور پر ان چند غلط فہمیوں کو دفع کرنا مقصود ہے جن میں بہت سی قومیں اور بہت سے گروہ اس وقت مبتلا تھے اور اب تک مبتلا ہیں ۔۔۔مثلا بنی اسرائیل سمجھتے تھے کہ ہم چونکہ نبیوں کی اولاد ہیں اس لئے ہم جنت میں جائیں گے۔۔۔یا مثلا مشرکین عرب کا خیال تھا کہ ہمارے دیوتاﺅں کا جو اللہ سے خاص تعلق ہے بس یہی ہماری نجات کا ذریعہ ہے اور اسی طرح عیسائی سمجھتے تھے کہ یسوع مسیح سولی پر چڑھ کر ہم سب کی طرف سے کفارہ ادا کرچکے ہیں اس لئے ان کی یہ قربانی ہماری نجات کے لئے کافی ہے ۔
حاصل کلام یہ ہے کہ ”ل“ کو انتفاع کے لئے ماننے کی صورت میں آیت کو حصر عرفی پر محمول کرکے ماننا پڑے گا کہ آیت کا منشاءبس اسی قسم کے توہمات اور بے اصل خیالات کی نفی کرنا ہے اور مطلب یہ ہے کہ آدمی اس قسم کی غلط فہمیوں اور جھوٹی امیدوں میں مبتلا نہ رہے کہ میرے باپ دادا یا میرے بزرگ اور پیشوا چونکہ خدا کے مقرب بندے تھے اس لئے اس کے تعلق اور ان کی برکت کی وجہ سے میں بھی بخشا جاﺅں گا اور ان کے نیک اعمال مجھے بھی جنت میں لے جائیں گے جس طرح رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وسلم نے اپنی صاحبزادی سیدہ فاطمہ زہرا رضی اللہ عنہا اور اپنے دوسرے اقارب سے فرمایا تھا کہ ”عمل کرو! عمل اس گھمنڈ میں نہ رہو کہ میرا خونی رشتہ اور میرا قرابتی و خاندانی تعلق تمہیں نجات دلالے گا ۔
اور آخر میں یہ وضاحت بھی کرتے چلیں جیسا کہ کچھ حضرات کا کہنا ہے کہ ”والدین کے لئے بچوں کی دعا و استغفار سے ہی فائدہ پہنچ سکتا ہے کیوں کہ وہ سبب ہیں ان کی پیدائش کا ۔۔۔اوروں کو نہیں پہنچ سکتا ؟؟؟
قرآن کریم میں حضرت نوح علیہ السلام کی یہ دعا بھی مذکور ہے :
رَّبِّ اغْفِرْ لِي وَلِوَالِدَيَّ وَلِمَن دَخَلَ بَيْتِيَ مُؤْمِنًا وَلِلْمُؤْمِنِينَ وَالْمُؤْمِنَاتِ وَلَا تَزِدِ الظَّالِمِينَ إِلَّا تَبَارًا الخ سورہ نوح 28 پارہ 29
ترجمہ:اے میرے رب معاف کر مجھ کو اور میرے ماں باپ کو اور جو آئے میرے گھر میں ایمان دار اور سب ایمان والے مردوں اور عورتوں کو اور ظالموں کے لئے تباہی کے سوا کچھ زیادہ نہ کر
اس آیت مبارکہ میں سب مومن مردوں اور عورتوں کے لئے دعا ہے ۔
اور یہاں بالکل واضح ہے کہ حضرت نوح علیہ السلام کے ماں باپ کے علاوہ جو مومن حضرت نوح علیہ السلام کے گھر میں تھے اور گھر سے باہر تھے سب مومن مردوں اور عورتوں کو نفع ہوا ۔
بس یہی ایصال ثواب ہے ۔
اسی طرح حضرت ابراہیم علیہ السلام کی دعاءہے :
رَبِّ اجْعَلْنِي مُقِيمَ الصَّلَاةِ وَمِن ذُرِّيَّتِي ۚ رَبَّنَا وَتَقَبَّلْ دُعَاءِ ﴿٤٠﴾ رَبَّنَا اغْفِرْ لِي وَلِوَالِدَيَّ وَلِلْمُؤْمِنِينَ يَوْمَ يَقُومُ الْحِسَابُ الخ ابراھیم 40 ،41 پارہ 13
ترجمہ :اے میرے پرودگار !بنادے مجھے نماز قائم کرنے والا اور میری اولاد میں سے بھی اے میرے پرودگار اور ہماری دعا قبول فرما ،اے میرے پرودگار بخش دے مجھے اور میرے والدین کو اور مومنوں کو کہ جس دن حساب قائم ہوگا ۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام نے یہ دعا سب کے لئے کی تو والد کی دعا کے لئے منع کردیا گیا کیوں کہ وہ کافر تھا ۔۔۔اس کو نبی کی دعا کا کوئی فائدہ نہ ہوا اور مومنوں کے لئے دعا سے منع نہیں کیا گیا ۔
امید ہے کہ اس ساری تفصیل کے بعد آپ اپنے خیالات پر ایک بار پھر نظر ثانی فرمائیں گے ۔جزاک اللہ
ضروری وضاحت :
یہ واضح رہے کہ ہماری اس وضاحت سے یہ مراد ہرگز نہیں کہ اس سے تیجہ دسواں بیسواں چالیسواں یا دیگر بدعات کو درست ثابت کرنا ہے بلکہ یہ واضح کرنا مقصود ہے کہ انسان کو اس کی اپنی کوشش اور سعی یا اولاد یا کسی سبب کے علاوہ دوسروں کے عمل سے بھی فائدہ پہنچتا ہے
اللہ تعالیٰ ہم سب کو دین کی صحیح سمجھ اور عمل کی توفیق عطاءفرمائے ۔آمین