آج کل تو ہر بندے کو ہی ہے
۔
مار تو ہر ایک کو ہی پڑتی
۔
ارےےےےے بابا۔۔۔۔۔ یہاں وصال کا ذکر ہے۔۔۔کہ جو محبت کرتے ہیں انہیں صرف غمِ یار ہوتا ہے۔۔۔لیکن اگر دونوں فریق اس میں بندھ جائیں تو انہیں پھر اور کوئی غم نہیں رہتا۔۔۔
اس اکیلے شعر پہ فوکس نہ کریں نا۔۔ساری نظم کو دیکھیں۔۔۔
یہ چول نہیں ہے
ارے نہیں ہوتا نہ غم۔۔۔اگر دونوں طرف محبت ہو اور وصال بھی ہو۔۔۔۔
اور ایسا بہت کم ہوتا
محبوب ہمیشہ بے رخ اور جفا کار رہتا۔۔۔ اور محبت کرنے والا بیچارہ یا بیچاری اس غم میں فنا ہو جاتا یا جاتی
۔
سنا نہیں آپ نے؟
زمانے بھر کے غم یا اک ترا غم.
یہ غم ہوگا تو کتنے غم نہ ہوں گے
ارے اللہ کے بندوں کس کام لگ گئے او۔ایک رخ کیوں دیکھ رہے شعر کا؟؟؟ شعر کا مفہوم تب تک مکمل نہیں ہوتا جب تک خارجی کیفیت نہ دیکھی جائے۔۔
بلکہ تسی انج کرو گل ای مکاو۔۔۔۔۔بس یہ سمجھ لیں کے شاعر کو یہاں قافیہ ہی
غم ملا تھا۔۔وچارے کی مجبوری تھی
۔
او باجی معلوم ہے نا ہمیں بھی