aslamoalikum wrwb........
humhy aik sawal pouchna hai
insan ki mout ka wqt aur jisy insan ki mout honi hai us ka bary mai allah na tah ker rakha hota hai. Per jo khud kushi kerty hai un ka bary mai kiya kaha ja sakta hai.
السلام علیکم ورحمتہ اللہ
محترمہ آپ اپنے سوالات کے جوابات سمجھنے کے لئے ایک تو یہ بات ذہن نشین کرلیجیے کہ موت کا وقت اٹل ہے .... کوئی اپنی موت سے ایک سیکنڈ نہ تو پیچھے جاسکتا ہے اور نہ آگے جاسکتا ہے ....
صحیح حدیث پاک میں آتا ہے :
حضور اکرم صلیٰ اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ تم میں سے ہر ایک کی پیدائش چالیس دن تک ماں کے پیٹ میں جمع ہوتی ہے ...پھر وہ چالیس دن تک خون بستہ کی شکل میں رہتا ہے پھر وہ چالیس دن تک گوشت کے لوتھڑے کی صورت میں رہتا ہے پھر اللہ تعالیٰ فرشتے کو بھیجتا ہے جو اس میں روح پھونکتا ہے اور بحکم تعالیٰ چار باتیں لکھ لی جاتیں ہیں ،روزی ، اجل ، عمل ،نیک یا بد ،بھلا یا برا ہونا .
صحیح بخاری ح : 3208 (صحیح مسلم ح : 2673)
یعنی ہر انسان کی پیدائش سے قبل ہی اُس کی روزی ، موت اور نیک یا بد ہونا لکھ دیا جاتا ہے ...یہی تقدیر ہے
غزوہ احد کے موقعہ پر جب منافقین میدان احد سے قبل ہی لوٹ گئے اورغزوہ احد میں جب ستر سے زائد صحابہ کرام کی شہادت ہوئی تو منافقین کہنے لگے کہ دیکھا ہماری بات مان لیتے تو یہ لوگ نہ مارے جاتے
اس پر آیت مبارکہ کا نزول ہوا
:
الَّذِينَ قَالُوا لِإِخْوَانِهِمْ وَقَعَدُوا لَوْ أَطَاعُونَا مَا قُتِلُوا ۗ قُلْ فَادْرَءُوا عَنْ أَنفُسِكُمُ الْمَوْتَ إِن كُنتُمْ صَادِقِينَ
الخ اٰل عمران 168 پارہ 4
ترجمہ :یہ وہ لوگ ہیں جو اپنے بھائیوں سے کہتے ہیں حالانکہ خود بیٹھ رہے تھے اگر وہ ہماری بات مانتے تو قتل نہ کیے جاتے کہہ دو اگر تم سچے ہو تو اپنی جانوں سے موت کو ہٹا دو
اس آیت کی تفسیر میں ابن کثیر رحمتہ اللہ علیہ لکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ منافقین کی چھپی ہوئی باتوں کا مجھے علم ہے ،یہ وہ لوگ ہیں جو اپنے بھائیوں کو کہتے ہیں کہ اگر یہ ہمارا مشورہ مانتے اور جنگ میں شرکت نہ کرتے تو ہرگز نہ مارے جاتے ... اس کے جواب میں اللہ رب العزت کا ارشاد ہوا کہ اگر یہ ٹھیک ہے اورتم اپنی بات میں سچے ہو کہ بیٹھ کے رہنے اور جنگ میں نہ نکلنے سے انسان قتل و موت سے بچ جاتا تو چاہیے کہ تم مرو ہی نہیں اس لئے تم تو گھروں میں بیٹھے ہو لیکن ظاہر ہے کہ ایک دن تم بھی چل بسو گے چاہے تم مضبوط برجو میں پناہ گذین ہوجاو، پس ہم تو تمہیں تب سچا مانیں گے کہ تم موت کو اپنی جانوں سے ٹال دو
یہاں یہ بات بالکل واضح ہوجاتی ہے کہ موت کا ایک وقت مقرر ہے اور جب موت کا وقت آتا ہے تو کوئی بھی اپنی موت کو ایک لمحہ اور ایک سیکنڈ بھی نہیں ٹال سکتا
اس طرح آپ کی پہلی بات کا جواب یہ ہے کہ انسان کی اجل اس کی پیدائش سے قبل ہی لکھ دی جاتی ہے اور ہرشخص کی موت کا حتمی طور پر بغیر کسی تردد کے علم الٰہی میں ایک وقت مقرر ہے جس سے کسی حال میں ایک گھڑی نہ دیر ہوسکتی ہے نہ ہی وقت سے ایک سیکنڈ جلدی ہوسکتی ہے ... تو اس لحاظ سے خود کشی کرنے والے کی موت کا وقت پورا ہوچکا ہوتا ہے.
hamary haan jo khud kush dhamaky hoty hai us mai jo shaks khud kush hamla awar hota hai us ki mout ka bary mai kiya kaha ja skta hai.
اوپر والی تفصیل کے بعد امید ہے کہ آپ کو یہ نقطہ بھی کلئیر ہوگیا ہوگا
aur jo log us dhamaky mai shahid hoty hai un ki mout ka wqt aur tareqy ka bary mai kiya kaha ja skta hai.
مندرجہ ذیل بیماریوں میں انتقال کرنے والوں کو احادیث مبارکہ میں شہید کہا گیا ہے: طاعون سے مرنے والا، پیٹ کی بیماری میں مرنے والا، ذات الجنب (نمونیہ) میں مرنے والا، بخار میں مرنے والا، سل (دق) میں مرنے والا، مرگی میں مرنے والا، دبلاہٹ کی بیماری میں مرنے والا، ان لوگوں کو حدیث میں شہید کہا گیا ہے۔
(مرقاة، ومظاہر حق جدید، بحوالہ ابواب السعادة فی اسباب الشہادة للسیوطی)
یہ لوگ حکماً شہید ہیں یعنی ان کا درجہ تو وہ نہیں جو حقیقی شہید کا ہوتا ہے تاہم اللہ اپنے فضل و کرم سے شہید کا سا ثواب ان کو دیتا ہے۔
اسی طرح احادیث پاک میں حادثات میں انتقال کرنے والوں کو بھہ شہید کہا گیا ہے، وہ بھی آخرت کے اجر و ثواب کے اعتبار سے ہے۔ شہید کے دنیوی احکام (یعنی غسل و کفن نہ دیا جانا) ان پر جاری نہیں ہوں گے۔
واللہ و اعلم بالصواب