kia teen baar aik saath talaq kehne se talaq lagu ho jaati hay!

  • Work-from-home
Status
Not open for further replies.

lovelyalltime

I LOVE ALLAH
TM Star
Feb 4, 2012
1,656
1,533
913
دوسری دلیل
’’ یَا أَیُّہَا النَّبِیُّ إِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَاء فَطَلِّقُوہُنَّ لِعِدَّتِہِنَّ وَأَحْصُوا الْعِدَّۃَ وَاتَّقُوا اللَّہَ رَبَّکُمْ لَا تُخْرِجُوہُنَّ مِن بُیُوتِہِنَّ وَلَا یَخْرُجْنَ إِلَّا أَن یَأْتِیْنَ بِفَاحِشَۃٍ مُّبَیِّنَۃٍ وَتِلْکَ حُدُودُ اللَّہِ وَمَن یَتَعَدَّ حُدُودَ اللَّہِ فَقَدْ ظَلَمَ نَفْسَہُ لَا تَدْرِیْ لَعَلَّ اللَّہَ یُحْدِثُ بَعْدَ ذَلِکَ أَمْراً ‘‘
(الطلاق:۱)
’’اے نبی !جب تم عورتوں کو طلاق دو تو انہیں ان کی عدت کے وقت طلاق دو اور ان کی عدت شمار کرو اور اپنے رب سے ڈرو، انہیں ان کے گھروں سے نہ نکالو اور نہ وہ خود نکلیں مگر یہ کہ وہ کھلی ہوئی بے حیائی کا ارتکاب کریں۔ اور یہ اللہ کی حدیں ہیں اور جو کوئی اللہ کی حدوں سے تجاوز کرے گا اس نے اپنے نفس پر ظلم کیا، تم نہیں جانتے ہو سکتا ہے اللہ اس کے بعد کوئی امر پیدا کر دے‘‘۔
اس آیت میں ’’قد ظلم نفسہ‘‘ کا تعلق مختلف امور سے ہے ، نہ کہ صرف طلاق لغیر العدۃسے۔ اور صحیح مفہوم یہی ہے کہ حدود الٰہی کی خلاف ورزی کرنے والا گنہگار اور عذاب الٰہی کا مستحق ہوگا ظلم نفس کا لفظ قرآن مجید میں عام طور سے اللہ کی نافرمانی کر کے اپنے نفس کی حق تلفی کرنے اور اسے ہلاکت میں ڈالنے کے مفہوم میں آیا ہے اور یہی مفہوم یہاں بھی ہے۔
یہ آیت طلاق رجعی کے بارے میں ہے اور ’’امرا‘‘سے مراد رجعت ہے جیسا کہ مشہور فقیہ صحابیہ فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنہا ،امام شعبی ،عطائ، قتادہ، ضحاک، مقاتل بن حیان اور ثوری رحمہم اللہ اجمعین کہتے ہیں۔
(تفسیر ابن کثیر، ج۷،ص۳۵، زاد المعاد ج۴ ص،۱۵۸،طبع مصطفیٰ البابی الحلبی مصر فتح الباری ج۹، ص۴۲۴، طبع بیروت)
سیدہ فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ یہ آیت اس عورت کے متعلق ہے جس سے حق رجعت باقی ہو کیوں کہ طلاق کے بعد تو کوئی نیا امر باقی ہی نہیں رہتا۔
(صحیح مسلم ج۱،ص۴۸۴، طبع رشیدیہ دھلی)
امام شعبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ
’’لعل اللہ یحدث بعد ذلک امرا‘‘
کا مطلب یہ ہے کہ شاید تو شرمندہ ہو جائے اور تیرے لئے رجعت کا راستہ پیدا ہو جائے۔
(ابن ابی شیبہ ج۵،ص۲۶۲،۲۶۳،طبع دارالسلفیہ بمبئی)
اور ضحاک کہتے ہیں کہ
’’لعل اللہ یحدث بعد ذلک امرا‘‘
سے مراد عورت سے عدت کے اندر رجوع کرنا ہے اور یہی قول عطاء ،قتادہ اور حسن رحمہم اللہ کا ہے۔
بہر حال اس آیت سے طلاق رجعی ثابت ہوتی ہے نہ کہ طلاق مغلظہ بائنہ۔ اس آیت میں طلاق سنی کا ذکر ہے جو ہر طہر میں دی جاتی ہے اس کی تائید مؤطا امام مالک کی اس روایت سے ہوتی ہے۔
’’عن عبداللہ بن دینار قال سمعت عبداللہ بن عمر قرأ یا یھا النبی اذا طلقتم النساء فطلقوھن لقبل عدتھن، قال مالک یعنی بذلک ان یطلق فی کل طھر مرۃ‘‘
(مؤطا امام مالک باب جامع الطلاق)
’’سیدنا عبداللہ بن دینار فرماتے ہیں: میں نے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کو پڑھتے ہوئے سنا’’ یا ایھا النبی الایہ‘‘ یعنی اے نبی! جب تم عورتوں کو طلاق دو تو آغاز عدت کے لئے دو ۔مالک کہتے ہیں اس کا مطلب یہ ہے کہ ایک طہر میں ایک مرتبہ طلاق دی جائے‘‘
قرآن پاک میں کوئی آیت ایسی نہیں جو یک جائی تین طلاق کے وقوع پر صراحتاً دلالت کرے جن سے استدلال کیا جاتا ہے وہ عام ہیں۔ سنت نے ان کی تخصیص کر دی ہے۔
امام شوکانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں
’’واجیب بان ھذہ عمومات مخصصۃ واطلاقات مقیدۃ بما ثبت من الادلۃ الدالۃ علی المنع من وقوع فوق الواحِدۃ‘‘
(نیل الاوطار ج۶، ص۲۴۶، طبع مصطفے البابی الحلبی مصر)
 
  • Like
Reactions: *Muslim*

lovelyalltime

I LOVE ALLAH
TM Star
Feb 4, 2012
1,656
1,533
913
ایک مجلس کی تین طلاق احادیث کی روشنی میں

صحیح احادیث کی رو سے ایک مجلس کی تین طلاقیں خواہ ایک ہی لفظ : تجھے تین طلاق یا تجھے طلاق، تجھے طلاق ، تجھے طلاق سے دی جائیں۔ ایک طلاق شمار ہوتی ہے۔ ایسی تین طلاقوں کے بعد شوہر کو عدت کے اندر رجعت کا پورا پورا اختیار ہے۔ اگر عدت کے اندر رجوع کر لیا جائے تو نئے نکاح کی ضرورت نہیں۔ مندرجہ ذیل احادیث سے یہ مسئلہ صراحت کے ساتھ ثابت ہوتا ہے۔
پہلی حدیث
(اخرج مسلم فی صحیحہ ،ج۱،ص۴۷۷، ۴۷۸ ،طبع رشیدیہ دھلی )
من طریق عبداللہ بن طاؤس عن ابیہ عن ابن عباس رضی اللہ عنہما قال کان الطلاق علی عہد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وابی بکر وسنتین من خلافۃ عمر طلاق الثلاث واحدۃ فقال عمر ان الناس قد استعجلوا فی امر کانت لھم فیہ اناۃ فلو امضیناہ علیھم فامضاہ علیھم‘‘
(رواہ ایضا عبدالرزاق فی المصنف ج۶،ص۳۹۲،طبع بیروت واحمد فی مسندہ ج۱، ص۳۱۴، طبع پاکستان)
’’سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں اور سیدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں اس کے بعد سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے عہد خلافت کے پہلے دو سالوں میں تین طلاقیں ایک ہی شمار ہوتی تھیں۔ پھر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا لوگ طلاق کے معاملے میں جلد بازی سے کام لینے لگے ہیں، حالانکہ اس میں ان کے لئے ڈھیل اور آسانی تھی۔ اس لئے اچھا ہے کہ ان سب کو ان پر جاری کر دیا جائے چانچہ وہ جاری کردیں‘‘
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے اس حدیث میں دو حکم بیان کئے ہیں ایک حکم شرعی اور دوسرا حکم سیاسی۔
پہلا حکم شرعی یہ ہے کہ زمن نبوی اور عہد صدیقی اور دو سال تک عہد فاروقی میں تین طلاقیں ایک ہی شمار ہوتی تھی جس میں کسی ایک صحابی کا اختلاف بھی ثابت نہیں۔
دوسرا حکم اس حدیث میں سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کاقول’’فقال عمر ‘‘ کو بھی بیان کیا ہے اور یہ تین طلاقوں کے جاری کرنے کی علت اور دلیل ہے۔
دوسری حدیث
’’عن طاؤس ان ابالصھبا قال لابن عباس اتعلم انما کانت الثلاث تجعل واحدۃ علی عہد النبی صلی اللہ علیہ وسلم وابی بکر وثلاثا من امارۃ عمر فقال ابن عباس نعم ‘‘
رواہ مسلم ج۱،ص۴۷۸، طبع رشیدیہ و ابو داؤد مع العون ج۲،طبع انصاری دھلی ص۳۳۸ والنسائی ج۲،ص۹۰ طبع پاکستان، وعبدالرزاق ج۶، ص۳۹۲ ،طبع بیروت والدارقطنی ج۴،ص۴۶،۴۷،۵۰،۵۱طبع پاکستان، والطحاوی، ج۲، ص۳۱، دیوبند، والبیھقی،ج۷،ص۳۳۶،طبع حیدر آباد
’’ابو الصہباء نے سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے کہا کہ کیا آپ کو معلوم ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں اور ابو بکر کے زمانے میں اور سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کی خلافت کے تین سال تک تین طلاقیں ایک ہی شمار ہوتی تھیں۔ تو سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا ہاں۔‘‘
یہ حدیث پہلی حدیث کی مصدق ہے اور دوسری حدیث بھی ۔پس اس حدیث سے صاف ثابت ہوتا ہے کہ ایک مجلس کی تین طلاقیں ایک ہی شمار ہوتی تھیں۔۔۔۔ اس کے خلاف یہ کہنا کہ ایک مجلس کی تین طلاقیں ہوتی ہیں بالکل غلط اور باطل ہے جس پر کوئی شرعی دلیل نہیں۔ کیوں کہ ابو الصہباء کے سوال کے جواب میں ابن عباس رضی اللہ عنہما نے یہ نہیں فرمایا کہ عہد نبوی و صدیقی میں کبھی تین طلاقیں تین ہوتی تھیں بلکہ ابن عباس رضی اللہ عنہما کا جواب دلیل ہے کہ ان تمام بابرکت زمانوں میں تین طلاقیں ایک ہی شمار ہوتی تھیں۔
تیسری حدیث
’’عن طاؤس ان ابا الصھباء قال لابن عباس ھات من ھناتک ألم یکن الطلاق الثلاث علی عھد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وابی بکر واحدۃ فقال قد کان ذلک کان فی عہد عمر تتابع الناس فی الطلاق فاجازہٗ علیہم‘‘
(رواہ مسلم ج۱ص۴۷۸طبع رشیدیہ دھلی دارقطنی ج۴ص۴۴طبع اثریہ پاکستان وابن ابی شیبہ ج۵ص۲۶طبع دارالسلفیہ دھلی والبیہقی ج۷ص۳۳۶طبع حیدر آباد)
’’ابو الصہباء نے عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے فرمایا کہ لائو جو آپ کے پاس علمی مسائل ہوں۔ کیا تین طلاقیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد میں اور ابو بکر صدیق کے زمانے میں ایک ہی نہ تھیں۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا بے شک ایک ہی تھیں۔ پھر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے زمانے میں جب لوگوں نے پے درپے طلاق دینی شروع کر دی تو عمر رضی اللہ عنہ نے ان پر جاری کر دیں‘‘۔

چوتھی حدیث
’’عن ابن عباس قال طلق رکانۃ بن عبد یزید اخوبنی المطلب امرأتہ فی مجلس واحد فحزن علیھا حزنا شدیدا قال فسألہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیف طلقتھا قال طلقتھا ثلاثا قال فی مجلس واحد قال نعم قال فانما تلک واحدۃ فارجعھا ان شئت قال فراجعھا وکان ابن عباس یری ان الطلاق عند کل طہر‘‘
(اخرجہ احمد ج۱ص۲۶۵طبع گوجرانوالہ پاکستان، وابو یعلی ج۴ص۳۷۹فی مسندہ طبع دارالمامون للتراث دمشق بیروت وصححہ وکذا فی فتح الباری ج۱ص۳۱۶طبع بیروت)
’’ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رکانہ بن عبدیزید مطلبی نے اپنی بیوی کو تین طلاقیں ایک ہی مجلس میں دیں ۔پھر بہت ہی غمگین ہوئے ۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے دریافت فرمایا کہ تم نے کس طرح طلاق دی؟ انہوں نے عرض کیا کہ میں تو تین طلاق دے چکا ۔ آپ نے فرمایا ایک ہی مجلس میں؟ کہا ہاں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تو پھر وہ ایک ہی ہے اگر چاہو تو رجوع کر لو، چنانچہ انہوں نے رجوع کرلیا۔ ابن عباس کا یہی خیال تھا کہ ہر طلاق ہر طہر میں ہو‘‘
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ اس حدیث کے متعلق فرماتے ہیں
’’وھذا الحدیث نص فی المسئلۃ لا یقبل التاویل الذی فی غیرہ من الروایات الاتی ذکرھا‘‘
(فتح الباری ج۹ص۳۱۶طبع بیروت)
’’یعنی ایک مجلس کی تین طلاق کے ایک ہونے میں یہ حدیث نص صریح ہے دیگر روایات میں جو تاویلیں کی جاتی ہیں اس حدیث میں وہ تاویلیں بالکل غیر مقبول ہیں‘‘
اگر انصاف سے دیکھا جائے تو یہ حدیث نص صریح ہونے کے اعتبار سے سارے اختلافات کی فیصلہ کن ہے۔ اور بقول حافظ ابن حجر رحمہ اللہ صحیح مسلم کی تینوں مذکورہ احادیث اس کی زبردست تائید کرتی ہیں۔
’’ویقوی حدیث ابن اسحاق المذکور ما اخرجہ مسلم‘‘
(فتح الباری ج۹ص۳۱۶طبع بیروت)یعنی ابن اسحاق کی حدیث کو مسلم شریف کی تینوں حدیثوں سے تقویت حاصل ہوتی ہے اور اس کے بعد تینوں حدیثوں کو نقل کیا ہے۔

پانچویں حدیث
’’عن محمود بن لبید قال اخبر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عن رجل طلق امرأتہ ثلاث تطلیقات جمیعا فقام غضبانا ثم قال ایلعب بکتاب اللہ وانا بین اظہرکم حتی قام رجل وقال یا رسول اللہ الا اقتلہ‘‘
(رواہ النسائی ج۲ص۸۹طبع السلفیہ لاھور، قال ابن القیم واسنادہ علی شرط مسلم، زادالمعاد ج۴ص۵۲وقال ابن کثیر اسنادہ جید وقال الحافظ فی بلوغ المرام رواتہ موثقون وفی الفتح رجالہ ثقات ج۹ص۳۱۵طبع بیروت)
’’محمود بن لبید سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو خبر دی گئی کہ ایک شخص نے اپنی بیوی کو تین طلاقیں اکھٹی دے دیں۔ پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم غصے کی حالت میں کھڑے ہوئے اور فرمایا کہ اللہ کی کتاب کے ساتھ کھیل کیا جاتا ہے حالانکہ میں تم میں موجود ہوں یہ سن کر ایک شخص کھڑا ہوا اور کہا کہ یار سول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیا میں اس کو قتل نہ کردوں؟‘‘
اس حدیث میں مذکور نہیں کہ طلاق دینے والے کی یہ تین طلاقیں واقع ہو ئیں یا نہیں۔ لیکن اس سے پہلے والی چارحدیثوں سے یہ ثابت ہو چکا ہے کہ ایک مجلس کی اکھٹی تین طلاقیں شریعت میں ایک ہی طلاق ہوتی ہے اور ان سے یہ بھی معلوم ہو چکا ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور سیدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ کے زمانہ مبارک میں اور دو سال تک عمر رضی اللہ عنہ کے عہد خلافت میں بھی یہی دستور شرعی تھا کہ اکھٹی تین طلاقیں ایک ہی ہوتی تھیں۔ تو اس حدیث میں مذکور تین طلاقیں ایک ہی واقع ہوئی ۔ ان کے تین واقع ہونے کا سوال ہی نہیں ہے۔
 
  • Like
Reactions: *Muslim*

i love sahabah

TM Star
Sep 17, 2008
1,108
1,572
1,313
قَالَ اللّٰہُ تَعَالٰی: فَاِنْ طَلَّقَھَا فَلاَتَحِلُّ لَہُ مِنْ بَعْدُ حَتّٰی تَنْکِحَ زَوْجًا غَیْرَہُ۔
(سورۃ بقرۃ:230)
ترجمہ: اگر(کسی نے )اپنی بیوی کوطلاق دی تو اب(اس وقت تک کے لیے اس کے لیے ) حلال نہیں۔ یہاں تک کہ اس خاوند کے علاوہ دوسرے سے نکاح نہ کرلے۔
قَالَ الْاِمَامُ مُحَمَّدُ بْنُ اِدْرِیْسَ الشَّافِعِیُّ:وَالْقُرْآنُ یَدُلُّ وَاللّٰہُ اَعْلَمُ عَلٰی اَنَّ مَنْ طَلَّقَ زَوْجَۃً لَّہُ دَخَلَ بِھَا اَوْلَمْ یَدْخُلْ بِھَا ثَلَاثًا لَمْ تَحِلَّ لَہُ حَتّٰی تَنْکِحَ زَوْجاً غَیْرَہُ۔
(کتاب الام ؛امام محمد بن ادریس الشافعی ج2ص1939)
ترجمہ: امام محمد بن ادریس شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:’’قرآن کریم کاظاہر اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ جس شخص نے اپنی بیوی کو تین طلاقیں دے دیں، خواہ اس سے ہمبستری کی ہو یا نہ کی ہو تووہ عورت اس شخص کے لیے حلال نہیں یہاں تک کہ وہ کسی اورمرد سے نکاح نہ کرلے۔‘‘
قَالَ الْاِمَامُ اَبُوْبَکْرٍاَحْمَدُ بْنُ الْحُسَیْنِ الْبَیْھَقِیُّ اَخْبَرَنَا اَبُوْزَکَرِیَّا بْنُ اَبِیْ اِسْحَاقَ الْمُزَکِّیُّ اَنَا اَبُوالْحَسَنِ الطَّرَائِفِیُّ نَاعُثْمَانُ بْنُ سَعِیْدٍنَاعَبْدُاللّٰہِ بْنُ صَالِحٍ عَنْ مُعَاوِیَۃَ بْنِ صَالِحٍ عَنْ عَلِیِّ بْنِ اَبِیْ طَلْحَۃَ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا فِی قَوْلِہٖ تَعَالٰی {فَاِنْ طَلَّقَھَا فَلاَ تَحِلُّ لَہُ مِنْ بَعْدُ حَتّٰی تَنْکِحَ زَوْجًا غَیْرَہُ} یَقُوْلُ اِنْ طَلَّقَھَا ثَلَاثًا فَلَا تَحِلُّ لَہُ حَتّٰی تَنْکِحَ زَوْجًاغَیْرَہُ۔
(سنن کبریٰ بیہقی ج7ص376 باب نکاح المطلقۃ ثلاثا)
ترجمہ: حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں:’’اگر کسی نے اپنی بیوی کو تین طلاقیں دے دی ہوں وہ اس کے لیے حلال نہیں حتی کہ وہ کسی اورمرد سے نکاح نہ کرلے۔
”فان طلقہا فلاتحل لہ من بعد حتی تنکح زوجا غیرہ…“ (بقرہ:۲۳۰)
یعنی دو طلاق دینے تک تو مرد کو رجوع کا اختیار ہے، لیکن جب تیسری طلاق بھی دیدی تو اب مرد کے لئے رجوع کا حق باقی نہیں رہتا، عورت اپنے شوہر پر حرمت مغلظہ کے ساتھ حرام ہوجاتی ہے۔
چنانچہ اس آیت کی تفسیر میں علامہ قرطبی فرماتے ہیں:
”ترجم البخاری علی ہذہ الایة باب من اجاز الطلاق الثلاث بقولہ تعالیٰ الطلاق مرتان، فامساک بمعروف او تسریح باحسان، وہذا اشارة الی ان ہذہ التعدید انما ہو فسخة لہم فمن ضیق علی نفسہ لزمہ قال علمائنا: واتفق ائمة الفتویٰ علی لزوم ایقاع الطلاق الثلاث فی کلمة واحدة وہو قول جمہور السلف… المشہور عن الحجاج بن ارطاة وجمہور السلف والائمة انہ لازم واقع ثلاثاً ولافرق بین ان یوقع ثلاثًا مجتمعة فی کلمة او متفرقة فی کلمات…“ (الجامع لاحکام القرآن ج:۳/۱۲۹)
اسی طرح احکام القرآن للجصاص میں ہے:
”قال ابوبکر: قولہ تعالیٰ الطلاق مرتان فامساک بمعروف او تسریح باحسان الایة: یدل علی وقوع الثلاث معاً مع کونہ منہیاً عنہا…“
(ج:۱/۴۶۷
علامہ شوکانی بھی اسی آیت کی تشریح میں بیان کرتے ہیں کہ
”ظاہری طور پہ یہ بتا رہی ہے کہ 3 یا 2 طلاق ایک دم دینابھی جائز ہے اور واقع ہو جاتی ہیں۔اور امام کرمانی فرماتے ہیں کہ یہ آیت دلالت کرتی ہے کہ 2 یا 3 طلاق ایک دم دینی جائز ہےٌ ( نیل الاوطار جلد 6 صفحہ 260)
قَالَ الْاِمَامُ الْحَافِظُ الْمُحَدِّثُ الْمُفَسِّرُ الْقَاضِیُّ ثَنَائُ اللّٰہِ الْعُثْمَانِیُّ فِیْ تَفْسِیْرِ ھٰذِہِ الْآیَۃِ{أَلطَّلاَقُ مَرَّتٰنِ}لَاَنَّ قَوْلَہُ أَلطَّلَاَقُ عَلٰی ھٰذَا التَّاوِیْلِ یُشْمِلُ الطَّلَقَاتِ الثَّلاَثَ اَیْضاً…لٰکِنَّھُمْ اَجْمَعُوْا عَلیٰ اَنَّہُ مَنْ قَالَ لِاِمْرَأتِہِ أَنْتِ طَالِقٌ ثَلاَثاً یَقَعُ ثَلاَثٌ بِالْاِجْمَاعِ ۔
(تفسیر مظہری ج2ص300)
ترجمہ: مفسر قرآن قاضی ثناء اللہ پانی پتی رحمہ اللہ آیت {اَلطَّلَاقُ مَرَّتٰنِ} کی تفسیر میں فرماتے ہیں:’’اللہ تعالیٰ کا فرمان ’’اَلطَّلَاقُ‘‘اس تفسیر کے مطابق (جو پہلے ذکر کی ہے) تین طلاقوں کو بھی شامل ہے۔ مزید فرماتے ہیں کہ فقہاء ومحدثین نے اس بات پر اجماع کیاہے کہ جس شخص نے اپنی بیوی کوکہا’’اَنْتِ طَالِقٌ ثَلَاثاً ‘‘(تجھے تین طلاقیں ہیں) تو بالاجماع تین ہی واقع ہوجائیں گی۔
الطلاق مرتان میں [مرتان] کے معنی اثنان ہیں، یعنی طلاق رجعی دو ہیں، چاہے یہ دو الگ الگ طہر میں دی جائیں یا ایک طہر میں الگ الگ مجلس میں دی جائیں یا ایک مجلس میں الگ الگ لفظوں میں دی جائیں یا ایک ہی لفظ میں۔ آیت کریمہ کا یہ مطلب شان نزول کے زیادہ موافق ہے اور یہی مطلب عبارت قرآنی کے زیادہ لائق ہے،ارشاد ربانی ہے: نُوٴْتِہَا اَجْرَھَا مَرَّتَیْن چنانچہ علامہ ابن حزم محلی میں لکھتے ہیں: وأما قولہم معنی قولہ الطلاق مرتان أن معناہ مرة بعد مرة فخطأ بل ھذہ الآیة کقولہ تعالیٰ نوٴتہا أجرہا مرتین أی مضاعفًا معًا) (محلی ابن حزم)
 
  • Like
Reactions: sherry2112

i love sahabah

TM Star
Sep 17, 2008
1,108
1,572
1,313
قَالَ الْاِمَامُ الْحَافِظُ الْمُحَدِّثُ الْکَبِیْرُ مُحَمَّدُ بْنُ اِسْمٰعِیْلَ الْبُخَارِیُّ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ یُوْسُفَ قَالَ اَخْبَرَنَا مَالِکٌ عَنِ ابْنِ شِہَابٍ اَنَّ سَھْلَ بْنَ سَعْدٍ السَاعِدِیَّ اَخْبَرَہُ…قَالَ عُوَیْمَرُکَذِبْتُ عَلَیْھَا یَارَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اِنْ اَمْسَکْتُھَا فَطَلَّقَھَا ثَلاَ ثًا قَبْلَ اَنْ یَّامُرَہُ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ {وَفِیْ رِوَایَۃ ٍ}قَالَ فَطَلَّقَھَا ثَلاَثَ تَطْلِیْقَاتٍ عِنْدَ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَاَنْفَذَہُ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ۔
(صحیح البخاری ج2ص791 باب من اجاز اطلاق الثلاث، سنن ابی داود: ج1ص324 باب فی اللعان)
ترجمہ: حضرت سہل بن سعد الساعدی رضی اللہ عنہ نے خبر دی کہ حضرت عویمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! اگر میں اس کو اپنے پاس روکوں اور بیوی بناکر رکھوں تو میں نے پھر اس پر جھوٹ کہا پھراس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم صادر فرمانے سے پہلے ہی اس کو تین طلاقیں دے دیں۔(سنن ابی داود کی روایت میں ہے کہ) اس نے اس کو (یعنی عویمر رضی اللہ عنہ نے اپنی بیوی کو) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تین طلاقیں دیں توآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کونافذ کردیا۔
قَالَ الْاِمَامُ الْحَافِظُ الْمُحَدِّثُ الْکَبِیْرُ مُحَمَّدُ بْنُ اِسْمَاعِیْلَ الْبُخَارِیُّ حَدَّثَنِیْ مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ قَالَ حَدَّثَنَا یَحْیٰ عَنْ عُبَیْدِ اللّٰہِ قَالَ حَدَّثَنَا الْقَاسِمُ بْنُ مُحَمَّدٍ عَنْ عَائِشَۃَاَنَّ رَجُلاً طَلَّقَ اِمْرَأتَہُ ثَلٰثاً فَتَزَوَّجَتْ فَطَلَّقَ فَسُئِلَ النَّبِیُّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اَتَحِلُّ لِلْاَوَّلِ؟ قَالَ:لَاحَتّٰی یَذُوْقَ عُسَیْلَتَھَا کَمَا ذَاقَ الْاَوَّلُ۔
(صحیح بخاری ج2ص791باب من اجاز طلاق الثلاث)
ترجمہ: ام المومنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ ایک شخص نے اپنی بیوی کو تین طلاقیں دے دیں،اُس نے کسی اورمرد سے نکاح کیااور(ہمبستری سے پہلے)اسے طلاق دے دی۔نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیاگیاکہ وہ عورت اپنے پہلے خاوند کے لیے حلال ہے؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’نہیں!جب تک کہ دوسرا خاوند اس سے ہمبستری نہ کرے (اور لطف اندوز نہ ہوجائے ) جیساکہ پہلا خاوند ہوا۔
اس حدیث میں ”طلق امراتہ ثلاثًا“ کا جملہ اس کا مقتضی ہے کہ تین طلاق اکھٹی اور دفعة دی گئیں۔ اسی طرح حافظ ابن حجر عسقلانی فرماتے ہیں کہ اس حدیث سے تین طلاقیں اکٹھی واقع ہوجانے پر استدلال ہے۔ چنانچہ فرماتے ہیں:

”وہی بایقاع الثلاث اعم من ان تکون مجمعةً او متفرقةً“





(فتح الباری ج:۹/۳۶۲ط ادارة بحوث العلمیة
قَالَ الْاِمَامُ الْحَافِظُ عَلِیُّ بْنُ عُمَرَ الدَّارَقُطْنِیُّ نَاعَلِیُّ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ عُبَیْدِ الْحَافِظِ نَامُحَمَّدُ بْنُ شَاذَانَ الْجَوْھَرِیُّ نَامُعَلّٰی بْنُ مَنْصُوْرٍ نَاشُعَیْبُ بْنُ رُزَیْقٍ أنَّ عَطَائَ الْخُرَاسَانِیَّ حَدَّثَھُمْ عَنِ الْحَسَنِ قَالَ نَاعَبْدُاللّٰہِ بْنُ عُمَرَ فَقُلْتُ یَارَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ! رَأیْت لَوْ اَنِّیْ طَلَّقْتُھَا ثَلاَثاً کَانَ یَحِلُّ لِیْ أنْ اُرَاجِعَھَا؟ قَالَ لَا کَانَتْ تَبِیْنُ مِنْکَ وَتَکُوْنُ مَعْصِیَۃً۔
(سنن دارقطنی ج4ص20 حدیث نمبر3929)
ترجمہ: حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے حیض کی حالت میں اپنی بیوی کو ایک طلاق دے دی پھر ارادہ کیا کہ باقی دوطلاقیں بھی بقیہ دوحیض(یا طہر) کے وقت دے دیں۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کی خبرہوئی توآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے فرمایا:’’تجھے اللہ تعالی نے اس طرح تو حکم نہیں دیا تو نے سنت کی خلاف ورزی کی ہے سنت تو یہ ہے کہ جب طہر(پاکی) کا زمانہ آئے تو ہر طہرکے وقت اس کوطلاق دے۔ وہ فرماتے ہیں کہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے حکم دیا کہ تو رجوع کرلے! چنانچہ میں نے رجوع کر لیا پھرآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا:’’ جب وہ طہر کے زمانہ میں داخل ہو تو اس کوطلاق دے دینا اورمرضی ہو تو بیوی بناکررکھ لینا ۔ ‘‘ اس پرمیں نے عرض کیا: یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! یہ تو بتلائیں کہ اگر میں اس کو تین طلاقیں دے دیتا تو کیا میرے لیے حلال ہوتا کہ میں اس کی طرف رجوع کر لیتا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’نہیں وہ تجھ سے جدا ہو جاتی اوریہ (کام کرنا ) گناہ ہوتا۔
تین طلاقوں کے تین واقع ہونے پر اجماع امت

1: قَدْ قَالَ الْاِمَامُ أَبُوْبَکْرِ ابْنُ الْمُنْذِرِ النِّیْشَابُوْرِیُّ: وَأجْمَعُوْا عَلٰی أَنَّ الرَّجُلَ اِذَاطَلَّقَ اِمْرَأتَہُ ثَلاَثًا أَنَّھَالَاتَحِلُّ لَہُ اِلَّابَعْدَ زَوْجٍ عَلٰی مَا جَائَ بِہ حَدِیْثُ النَّبِیِّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ثُمَّ قَالَ:أَوْ اَجْمَعُوْاعَلٰی أَنَّہُ اِنْ قَالَ لَھَا أَنْتِ طَالِقٌ ثَلاَثاً اِلَّا ثَلاَثاً اَنَّھَا اُطْلِقَ ثَلاَ ثًا۔
(کتاب الاجماع لابن المنذر ص92)
ترجمہ: امام ابن المنذر رحمہ اللہ نے فرمایا :’’فقہاء اورمحدثین امت نے اس پر اجماع کیا ہے کہ جب مرد اپنی بیوی کو تین طلاقیں دے تو وہ اس کے لیے حلال نہیں رہتی۔ ہاں! جب وہ دوسرے شوہر سے نکاح کرلے تواب حلال ہو جاتی ہے کیونکہ اس بارے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث وارد ہوئی ہے ۔ ابن المنذر رحمہ اللہ نے فرمایا: ’’ فقہاء ومحدثین کا اس پر بھی اجماع ہے کہ اگر شوہر نے بیوی کو کہا اَنْتِ طَالِقٌ ثَلَاثاً اِلَّا ثَلَاثاً (تجھے تین طلاقیں ہیں مگر تین طلاق) تو تین ہی واقع ہوں گی۔‘‘

2: قَالَ الْاِمَامُ الْحَافِظُ الْمُحَدِّثُ الْفَقِیْہُ أَبُوْجَعْفَرٍ أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدِ الطَّحَاوِیُّ مَنْ طَلَّقَ اِمْرَأتَہُ ثَلاَثاً فَاَوْقَعَ کُلاًّ فِیْ وَقْتِ الطَّلَاقِ لَزِمَہُ مِنْ ذٰلِکَ…فَخَاطَبَ عُمَرُ بِذٰلِکَ النَّاسَ جَمِیْعًا وَفِیْھِمْ أَصْحَابُ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَرَضِیَ اللّٰہُ عَنْھُمُ الَّذِیْنَ قَدْعَلِمُوْامَاتَقَدَّمَ مِنْ ذٰلِکَ فِیْ زَمَنِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَلَمْ یُنْکِرْہُ عَلَیْہِ مِنْھُمْ مُنْکِرٌوَلَمْ یَدْفَعْہُ دَافِعٌ فَکَاَنَّ ذٰلِکَ اَکْبَرُ الْحُجَّۃِ فِیْ نَسْخٍ مَاتَقَدَّمَ مِنْ ذٰلِکَ لِاَنَّہُ لَمَّاکَانَ فِعْلُ اَصْحَابِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ جَمِیْعاً فِعْلاً یَجِبُ بِہِ الْحُجَّۃُ کَانَ کَذٰلِکَ اَیْضاً اِجْمَاعُھُمْ عَلَی الْقَوْلِ اِجْمَاعاً یَجِبُ بِہِ الْحُجَّۃُ۔
(سنن الطحاوی ج2ص34باب الرجل یطلق امرأتہ ثلاثاً معا،ونحوہ فی مسلم ج1 ص477 )
ترجمہ: محدث کبیر امام ابوجعفر طحاوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:’’جس نے اپنی بیوی کو تین طلاقیں دیں اورتینوں کو طلاق کے وقت واقع بھی کردیا تو اس سے لازم ہو جائیں گی (دلیل اس کی حضرات صحابہ رضی اللہ عنہم کا اجماع ہے کہ) جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے تمام لوگوں کو اس چیز کے متعلق خطاب فرمایا کہ تین طلاقیں تین ہی ہوں گی اوران لوگوں میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابی بھی موجود تھے جو حضور علیہ السلام کے عہد مبارک میں اس معاملہ سے بخوبی واقف تھے لیکن کسی نے بھی حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی اس بات کا انکار نہ کیا اورنہ ہی کسی نے اسے رد کیا۔ تو یہ سب سے بڑی دلیل ہے کہ اس سے پہلے جو کچھ معاملہ رہا، منسوخ ہے۔ اس لیے کہ جس طرح تمام صحابہ رضی اللہ عنہم کا فعل اتنی قوت رکھتا ہے کہ اس سے دلیل پکڑنا واجب ہے اسی طرح حضرات صحابہ رضی اللہ عنہم کاکسی بات پر اجماع کرنا بھی حجت ہے (جیساکہ اس مسئلہ طلاق میں ہے )

3: قَالَ الْاِمَامُ الْحَافِظُ الْمُحَدِّثُ الْمُفَسِّرُ الْقَاضِیُّ ثَنَائُ اللّٰہِ الْعُثْمَانِیُّ فِیْ تَفْسِیْرِ ھٰذِہِ الْآیَۃِ{أَلطَّلاَقُ مَرَّتٰنِ}لَاَنَّ قَوْلَہُ أَلطَّلَاَقُ عَلٰی ھٰذَا التَّاوِیْلِ یُشْمِلُ الطَّلَقَاتِ الثَّلاَثَ اَیْضاً…لٰکِنَّھُمْ اَجْمَعُوْا عَلیٰ اَنَّہُ مَنْ قَالَ لِاِمْرَأتِہِ أَنْتِ طَالِقٌ ثَلاَثاً یَقَعُ ثَلاَثٌبِالْاِجْمَاعِ ۔
(تفسیر مظہری ج2ص300)
ترجمہ: مفسر قرآن قاضی ثناء اللہ پانی پتی رحمہ اللہ آیت {اَلطَّلَاقُ مَرَّتٰنِ} کی تفسیر میں فرماتے ہیں:’’اللہ تعالیٰ کا فرمان ’’اَلطَّلَاقُ‘‘اس تفسیر کے مطابق (جو پہلے ذکر کی ہے) تین طلاقوں کو بھی شامل ہے۔ مزید فرماتے ہیں کہ فقہاء ومحدثین نے اس بات پر اجماع کیاہے کہ جس شخص نے اپنی بیوی کوکہا’’اَنْتِ طَالِقٌ ثَلَاثاً ‘‘(تجھے تین طلاقیں ہیں) تو بالاجماع تین ہی واقع ہوجائیں گی۔
غیر شرعی طلاقیں بھی نافذ ہوجاتی ہیں
حالت_حیض میں طلاق دینا ممنوع ہے، مگر دی گئی تو طلاق ہوجاتی ہے، ورنہ رجوع کرنے کا حکم نہ ہوتا، ایسے ہی تین طلاق دینے سے بھی طلاق ہوجاتی ہیں اور بیوی حرام ہوجاتی ہے.

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ ، عَنْ نَافِعٍ ، " أَنَّ ابْنَ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا طَلَّقَ امْرَأَةً لَهُ وَهِيَ حَائِضٌ تَطْلِيقَةً وَاحِدَةً ، فَأَمَرَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ يُرَاجِعَهَا ، ثُمَّ يُمْسِكَهَا حَتَّى تَطْهُرَ ثُمَّ تَحِيضَ عِنْدَهُ حَيْضَةً أُخْرَى ، ثُمَّ يُمْهِلَهَا حَتَّى تَطْهُرَ مِنْ حَيْضِهَا ، فَإِنْ أَرَادَ أَنْ يُطَلِّقَهَا ، فَلْيُطَلِّقْهَا حِينَ تَطْهُرُ مِنْ قَبْلِ أَنْ يُجَامِعَهَا ، فَتِلْكَ الْعِدَّةُ الَّتِي أَمَرَ اللَّهُ أَنْ تُطَلَّقَ لَهَا النِّسَاءُ " ، وَكَانَ عَبْدُ اللَّهِ إِذَا سُئِلَ عَنْ ذَلِكَ ، قَالَ لِأَحَدِهِمْ : إِنْ كُنْتَ طَلَّقْتَهَا ثَلَاثًا فَقَدْ حَرُمَتْ عَلَيْكَ ، حَتَّى تَنْكِحَ زَوْجًا غَيْرَكَ . وَزَادَ فِيهِ غَيْرُهُ . عَنْ اللَّيْثِ ، حَدَّثَنِي نَافِعٌ ، قَالَ ابْنُ عُمَرَ : لَوْ طَلَّقْتَ مَرَّةً أَوْ مَرَّتَيْنِ فَإِنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَمَرَنِي بِهَذَا .
[صحيح البخاري» كِتَاب الطَّلَاقِ» بَاب وَبُعُولَتُهُنَّ أَحَقُّ بِرَدِّهِنَّ سورة البقرة ..., رقم الحديث: 4944(5332]
قتیبہ، لیث، نافع کہتے ہیں کہ ابن عمربن خطاب رضی اللہ عنہما نے اپنی بیوی کو حیض کی حالت میں ایک طلاق دے دی تو ان کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ رجوع کرلے، پھر اس کو روکے رکھ، یہاں تک کہ وہ پاک ہوجائے، پھر اس کے پاس اسے دوسرا حیض آجائے، پھر اس کو رہنے دے یہاں تک کہ وہ حیض سے پاک ہوجائے، اگر وہ اس کو طلاق دینا چاہتا ہے تو طلاق دے دے جب کہ وہ حیض سے پاک ہوجائے لیکن صحبت سے پہلے، یہی وہ عدت ہے جس کے متعلق اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے کہ اس میں عورتوں کو طلاق دی جائے اور عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے جب اس کے متعلق پوچھا گیا تو ایک شخص سے کہا کہ جب تو اپنی بیوی کو تین طلاقیں دے تو وہ تجھ پر حرام ہے، یہاں تک کہ وہ دوسرے شوہر سے نکاح کرلے، اور دوسرے لوگوں نے اس میں اضافہ کے ساتھ لیث سے بواسطہ نافع، ابن عمر رضی اللہ عنہما کا قول نقل کیا کہ کاش! تو عورت کو ایک یا دو طلاقیں دیتا اس لئے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی کا مجھے حکم دیا تھا۔
[صحیح بخاری:جلد سوم:حدیث نمبر 306 (5017) - طلاق کا بیان : اللہ تعالیٰ کا قول کہ ان کا شوہر عدت میں ان کے لوٹانے کا زیادہ مستحق ہے اور کس طرح عورت سے رجوع کیا جائے جب کہ اس کو ایک یا دو طلاقیں دے دے
عن مجاہد قال کنت عند ابن عباس فجاء ہ رجل فقال انہ طلق امراتہ ثلاثاً قال فسکت حتی ظنت انہ رآدہا الیہ ثم قال ینطلق احدکم فیرکب الحموقة ثم یقول: یا ابن عباس یا ابن عباس وان الله تعالیٰ قال ومن یتق الله یجعل لہ مخرجاً، وانک لم تتق الله فلااجد لک مخرجاً، عصیت ربک وبانت منک امراتک“۔ (سنن ابی داؤد ج:۱/۲۹۹ ط حقانیہ)

ترجمہ:…”مجاہد سے روایت ہے کہ ایک دفعہ میں حضرت عبد اللہ بن عباس کی خدمت میں بیٹھا ہوا تھا کہ ایک آدمی آیا اور کہا کہ میں نے اپنی بیوی کو تین طلاقیں دی ہیں (کیا حکم ہے) حضرت ابن عباس نے کوئی جواب نہیں دیا اور خاموش ہوگئے (مجاہد کہتے ہیں) مجھے گمان ہونے لگا کہ شاید ابن عباس اس کی بیوی کو واپس لوٹانے والے ہیں پھر ابن عباس نے فرمایا: کہ تم میں سے بعض لوگ ایسے ہیں کہ ان پر حماقت سوار ہوتی ہے، پھر میرے پاس آتا ہے اور کہتا ہے یا ابن عباس یا ابن عباس جب کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ جو شخص اللہ تعالیٰ سے ڈرتا ہے وہ اس کے لئے راستہ نکالتا ہے اور تو اللہ تعالیٰ سے ڈر انہیں (اور بیک وقت تین طلاقیں دیدی) اس لئے قرآن کے مطابق تمہارے لئے کوئی راستہ نہیں پاتا تونے خدا کی نافرمانی کی ہے اور تمہاری بیوی تم پر حرام ہوگئی ہے اور تم سے جدا ہوگئی ہے“۔

اور ابوداؤد اس حدیث کو بیان کرنے کے بعد فرماتے ہیں:

”روی ہذا الحدیث حمید الاعرج وغیرہ عن مجاہد عن ابن عباس… کلہم قالوا فی الطلاق الثلاث انہ اجاز ہا قال وبانت منک…“ (ابی داؤد ج:۱/۲۹۹ ط حقانیہ)

یعنی ان حضرات نے ابن عباس سے روایت بیان کی ہے یہ تمام رواة متفقہ طور پر نقل فرمارہے ہیں کہ ابن عباس نے تین طلاقوں کو نافذ فرمادیا اور فتویٰ دیا کہ عورت جدا ہوگئی۔


 
  • Like
Reactions: sherry2112

i love sahabah

TM Star
Sep 17, 2008
1,108
1,572
1,313
من طریق عبداللہ بن طاؤس عن ابیہ عن ابن عباس رضی اللہ عنہما قال کان الطلاق علی عہد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وابی بکر وسنتین من خلافۃ عمر طلاق الثلاث واحدۃ فقال عمر ان الناس قد استعجلوا فی امر کانت لھم فیہ اناۃ فلو امضیناہ علیھم فامضاہ علیھم‘‘
(رواہ ایضا عبدالرزاق فی المصنف ج۶،ص۳۹۲،طبع بیروت واحمد فی مسندہ ج۱، ص۳۱۴، طبع پاکستان)
’’سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں اور سیدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں اس کے بعد سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے عہد خلافت کے پہلے دو سالوں میں تین طلاقیں ایک ہی شمار ہوتی تھیں۔ پھر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا لوگ طلاق کے معاملے میں جلد بازی سے کام لینے لگے ہیں، حالانکہ اس میں ان کے لئے ڈھیل اور آسانی تھی۔ اس لئے اچھا ہے کہ ان سب کو ان پر جاری کر دیا جائے چانچہ وہ جاری کردیں‘‘
تشریح : ١
شارح_مسلم امام نووی (٦٣١-٦٧٦ھ ) رحمہ اللہ فرماتے ہیں: المراد أن المعتاد في الزمن الأول کان طلقة واحدة وصار الناس في زمن عمر رضي اللہ عنہ یوقعون الثلاث دفعة فنفذہ فعلی ھذا یکون إخبارا عن اختلاف عادة الناس لا عن تغیر حکم في مسئلة واحدة. یعنی مراد یہ ہے کہ پہلے ایک طلاق کا دستور تھا اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانے میں لوگ تینوں طلاقیں بیک وقت دینے لگے تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے انھیں نافذ کیا تو اس طور پر یہ حدیث لوگوں کی "عادتوں" کے بدل جانے کی خبر ہے نہ کہ مسئلہ واحدہ میں "حکم" کے بدلنے کی اطلاع ہے۔ (شرح مسلم: ج۱ ص۴۷۸)؛

تشریح : ٢

امام بخاری و مسلم کے استاد امام ابن ابی شیبہ نے، پھر امام ابو داود اور امام بیہقی نے اس قول میں یہ بھی روایت کیا ہے کہ یہ اس عورت کے بارے میں ہے جس کی رخصتی نہیں ہوئی. امام نسائی نے بھی یہی باب بندھا ہے؛ (بیوی سے دخول/جماع سے قبل تین علیحدہ طلاقیں دینا)؛
[السنن الكبرى للنسائي » كِتَابُ الطَّلاقِ » طَلاقِ الثَّلاثِ الْمُتَفَرِّقَةِ قَبْلَ الدُّخُولِ ...، رقم الحديث: 5411 (5569)]
اور ایسی عورت کے بارے میں خود حضرت عبدللہ بن عباس رضی الله عنہ کی وضاحت (ابن_ابی شیبہ : ٥/٢٥) پر موجود ہے کہ اگر اس کو یوں کہا جاۓ تجھے طلاق، طلاق، طلاق، تو اس کی ایک ہی طلاق پڑتی ہے (اس صورت میں دوبارہ نکاح بغیر حلالہ_شرعی کے جائز ہے اور سوچ و بچار کی گنجائش ہے) اور اگر یوں اس کو طلاقیں دی جائیں کہ تجھے تین طلاق تو اس سے تین طلاقیں ہی واقع ہوجاتی ہیں، اب بغیر حلالہ_شرعی کے اس کے نکاح نہیں ہوسکتا، یہ وہ جلدبازی ہے جس میں سوچ بچار کا موقع نہیں رہتا

:امام ابن_رشد مالکی رح (520هـ-595هـ) فرماتے ہیں
وقد احتج من انتصر لقول الجمهور بأن حديث ابن عباس الواقع في الصحيحين إنما رواه عنه من أصحابه طاوس ، وأن جلة أصحابه رووا عنه لزوم الثلاث ، منهم سعيد بن جبير ، ومجاهد ، وعطاء ، وعمرو بن دينار وجماعة غيرهم ، وأن حديث ابن إسحاق وهم ، وإنما روى الثقات أنه طلق ركانة زوجه البتة لا ثلاثا .

جمہور (علماء کی راۓ و مذھب) کی حمایت کرنے والے یہ استدلال کرتے ہیں کہ صحیحین میں موجود حضرت ابن_عباس (رض) کی حدیث کی روایت ان کے اصحاب میں سے "طاوس" نے کی ہے، جبکہ ان کے بیشتر اصحاب نے، جن میں سعید بن جبیر رح ، مجاہد رح ، عطاء رح اور عمرو بن دینار رح ہیں اور ان کے علاوہ ایک جماعت نے تین طلاقوں کے واقع ہوجانے کا قول نقل کیا ہے اور (رکانہ کے تین طلاق کے ایک ہونے کی بواسطہ عکرمہ کے حضرت ابن_عباس کی بیان شدہ) ابن_اسحاق کی حدیث "وہم" ہے، ثقہ راویوں کے الفاظ تو یہ ہیں کہ رکانہ نے اپنی بیوی کو طلاق_بتھ (طلاق_بائن) دی تھی، اس میں تین کے الفاظ نہیں ہیں.
[بداية المجتهد ونهاية المقتصد » كتاب الطلاق]
راوی حدیث حضرت عبد اللہ ابن عباس نے خود تین طلاقوں کے نفاذ کا فتویٰ دیا ہے، جیساکہ مذکور ہوچکا ہے۔
علامہ ابن قیم نے بھی باوجود اس تشدد وتصلب کے جوان کو اس مسئلہ میں تھا، حضرت ابن عباس کے اس فتویٰ ”ایک مجلس میں تین طلاقیں تین ہیں اور اس کے بعد رجعت جائز نہیں“ سے انکار نہیں کیا، بلکہ اس فتویٰ کے ثابت ہونے کا صاف اقرار کیا ہے۔ چنانچہ اغاثة اللفہان میں فرماتے ہیں:
”فقد صح بلاشک ابن مسعود وعلی ابن عباس الالزام بالثلاث ان اوقعہا جملة“۔ (ص:۱۷۹)
اورچونکہ یہ مسئلہ حلال وحرام کے متعلق ہے، اگر واقعی تین کو ایک سمجھا جاتا تو اس کے راوی صرف حضرت ابن عباس ہی کیوں ہیں، ان کے علاوہ دوسرے صحابہ کرام سے اس کے بارے میں کوئی روایت نہیں ہے، جبکہ ان سے بڑے خلیفہ راشد حضرت عمر فاروق اس کے برخلاف فیصلہ فرماتے ہیں اور یہ صحابہ کرام کے سامنے کی بات ہے اور ایک صحابی نے بھی اس حکم کے خلاف نہیں کیا جس سے اس مسئلہ پر ان کا اجماع معلوم ہوتا ہے
چند سوالات
حدیث_مسلم کے قول سے تین طلاق سے مراد ہر قسم کی تین طلاقیں ہیں تو تین الگ الگ "طهر" میں دی گئی تین طلاقیں بھی کیا ایک ہونگی؟
حدیث_مسلم میں اس میں نہ ہی ایک مجلس کا لفظ ہے نہ جميعاً کا.
صبح ، شام، رات یا تین دنوں یا ہفتوں میں ایک ایک کرکے تین طلاقیں کوئی الگ مجلس اور الگ وقت میں دے تو کیا وہ بھی ایک ہونگی؟
اکٹھی تین طلاق دینا اللہ کی آیت سے استہزاء اور رسول الله (صلی الله علیہ وسلم) کی ناراضگی کا سبب ہے. تو کیا صحابہ_کرام (رضی الله عنھم) بلا-روک ٹوک دور_نبوت، دور_صدیقی اور دور_فاروقی کے دو ابتدائی سالوں میں یہ گناہ کرتے رہے اور بدعی طلاق دیکر بدعتی بنتے رہے؟
اسی طرح کی "متعہ" پر ایک حدیث_مسلم (کتاب النکاح: نکاح_متعہ) میں حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ ہم ایک مٹھی کھجور یا ایک مٹھی آٹے کے عوض مقررہ دنوں کے لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے زمانہ میں متعہ کر لیتے تھے یہاں تک کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عمرو بن حریث کے واقعہ کی وجہ سے متعہ سے منع فرمایا دیا۔
کیا آپ مانوگے؟ کہ نبی (صلی الله علیہ وسلم) اور حضرت ابو بکر (رضی الله عنہ) کے زمانہ میں جواز_متعہ پر سب صحابہ کا اجماع تھا، حضرت عمر (رضی الله عنہ) کا روکنا ایک سیاسی حکم تھا، کوئی شرعی حکم نہیں تھا، اسی لئے حضرت ابن_عباس (رضی الله عنہ) نے پہلے اجماع کے اصل حکم_شرعی پر قائم رہتے ان سے اختلاف کیا. کیا یہ صحیح ہے یا نہیں؟ تو کیوں؟
 

lovelyalltime

I LOVE ALLAH
TM Star
Feb 4, 2012
1,656
1,533
913
قَالَ الْاِمَامُ الْحَافِظُ الْمُحَدِّثُ الْکَبِیْرُ مُحَمَّدُ بْنُ اِسْمٰعِیْلَ الْبُخَارِیُّ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ یُوْسُفَ قَالَ اَخْبَرَنَا مَالِکٌ عَنِ ابْنِ شِہَابٍ اَنَّ سَھْلَ بْنَ سَعْدٍ السَاعِدِیَّ اَخْبَرَہُ…قَالَ عُوَیْمَرُکَذِبْتُ عَلَیْھَا یَارَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اِنْ اَمْسَکْتُھَا فَطَلَّقَھَا ثَلاَ ثًا قَبْلَ اَنْ یَّامُرَہُ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ {وَفِیْ رِوَایَۃ ٍ}قَالَ فَطَلَّقَھَا ثَلاَثَ تَطْلِیْقَاتٍ عِنْدَ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَاَنْفَذَہُ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ۔
(صحیح البخاری ج2ص791 باب من اجاز اطلاق الثلاث، سنن ابی داود: ج1ص324 باب فی اللعان)
ترجمہ: حضرت سہل بن سعد الساعدی رضی اللہ عنہ نے خبر دی کہ حضرت عویمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! اگر میں اس کو اپنے پاس روکوں اور بیوی بناکر رکھوں تو میں نے پھر اس پر جھوٹ کہا پھراس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم صادر فرمانے سے پہلے ہی اس کو تین طلاقیں دے دیں۔(سنن ابی داود کی روایت میں ہے کہ) اس نے اس کو (یعنی عویمر رضی اللہ عنہ نے اپنی بیوی کو) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تین طلاقیں دیں توآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کونافذ کردیا۔
کیا بات ہے میرے بھائی کی
کون سی احادیث کہاں پیش کر رھے ہیں
پہلے آپ
لعان
کے بارے میں تو بتائیں کہ یہ کیا ہے جس باب سے آپ نے احادیث لی ہیں
اور اس حدیث کا مطلب بھی بتا دیں کہ اس میں جو حکم ہے وہ سب کے لیے ہے
یا
لعان
والوں کے لیے ہے
کتاب صحیح مسلم جلد 2 حدیث نمبر 1251
محمد بن رافع، عبدالرزاق، ابن جریج، ابن شہاب، حضرت سہل بن سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ انصار کا ایک آدمی نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں آیا اور اس نے عرض کیا اے اللہ کے رسول آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا کیا خیال ہے کہ ایک آدمی اپنی بیوی کے ساتھ کسی آدمی کو پاتا ہے پھر اس سے آگے وہی قصہ روایت کیا گیا ہے اور اس روایت میں یہ زائد ہے کہ دونوں میاں بیوی نے مسجد میں لعان کیا اور میں بھی وہاں موجود تھا اور اس حدیث میں یہ بھی ہے کہ اس سے پہلے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان کو حکم فرماتے اس آدمی نے اپنی اس عورت کو تین طلاقیں دے دیں اور نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی موجودگی ہی میں اس سے جدا ہوگیا تو نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہر لعان کرنے والوں کے درمیان اسی طرح جدائی ہو گی۔
 

lovelyalltime

I LOVE ALLAH
TM Star
Feb 4, 2012
1,656
1,533
913
صحیح بخاری:جلد سوم:حدیث نمبر 2163 حدیث مرفوع
حَدَّثَنَا آدَمُ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي ذِئْبٍ حَدَّثَنَا الزُّهْرِيُّ عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ السَّاعِدِيِّ قَالَ جَائَ عُوَيْمِرٌ الْعَجْلَانِيُّ إِلَی عَاصِمِ بْنِ عَدِيٍّ فَقَالَ أَرَأَيْتَ رَجُلًا وَجَدَ مَعَ امْرَأَتِهِ رَجُلًا فَيَقْتُلُهُ أَتَقْتُلُونَهُ بِهِ سَلْ لِي يَا عَاصِمُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَسَأَلَهُ فَکَرِهَ النَّبِيُّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْمَسَائِلَ وَعَابَهَا فَرَجَعَ عَاصِمٌ فَأَخْبَرَهُ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ کَرِهَ الْمَسَائِلَ فَقَالَ عُوَيْمِرٌ وَاللَّهِ لَآتِيَنَّ النَّبِيَّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَجَائَ وَقَدْ أَنْزَلَ اللَّهُ تَعَالَی الْقُرْآنَ خَلْفَ عَاصِمٍ فَقَالَ لَهُ قَدْ أَنْزَلَ اللَّهُ فِيکُمْ قُرْآنًا فَدَعَا بِهِمَا فَتَقَدَّمَا فَتَلَاعَنَا ثُمَّ قَالَ عُوَيْمِرٌ کَذَبْتُ عَلَيْهَا يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنْ أَمْسَکْتُهَا فَفَارَقَهَا وَلَمْ يَأْمُرْهُ النَّبِيُّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِفِرَاقِهَا فَجَرَتْ السُّنَّةُ فِي الْمُتَلَاعِنَيْنِ وَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ انْظُرُوهَا فَإِنْ جَائَتْ بِهِ أَحْمَرَ قَصِيرًا مِثْلَ وَحَرَةٍ فَلَا أُرَاهُ إِلَّا قَدْ کَذَبَ وَإِنْ جَائَتْ بِهِ أَسْحَمَ أَعْيَنَ ذَا أَلْيَتَيْنِ فَلَا أَحْسِبُ إِلَّا قَدْ صَدَقَ عَلَيْهَا فَجَائَتْ بِهِ عَلَی الْأَمْرِ الْمَکْرُوهِ
آدم، ابن ابی ذئب، زہری، سہل بن سعد، ساعدی سے روایت کرتے ہیں انہوں نے بیان کیا کہ عویمر عاصم بن عدی کے پاس آئے اور پوچھا کہ بتائیے ایک شخص اپنی بیوی کیساتھ کسی آدمی کو دیکھتا ہوں اور وہ اسے قتل کر دینا چاہتا ہے، تو کیا آپ لوگ اس کو قتل کر دیں، اے عاصم! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے میرے لئے دریافت کر لیجئے، انہوں نے آپ سے دریافت کیا تو نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان سوالات کو مکروہ سمجھا، عویمر نے کہا کہ خدا کی قسم میں نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس ضرور جاؤں گا،چنانچہ وہ حاضر ہوئے اور اللہ نے عاصم کے پیچھے آیت نازل کی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے عویمر سے فرمایا کہ تم دونوں کے متعلق اللہ نے قرآن نازل کیا چنانچہ آپ نے دونوں کو بلایا، پھر وہ آئے تو لعان کرایا، پھر عویمر نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں جھوٹا ہوں اگر میں اس کو اپنے پاس رکھ لوں، پھر انہوں نے اس سے جدائی اختیار کرلی حالانکہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے علیحدگی کا حکم نہیں دیا، اس کے بعد لعان کرنے والوں کے متعلق یہی طریقہ جاری ہو گیا، اور نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ اس عورت کو دیکھو کہ اگر یہ وحرہ کی طرح اور چھوٹا بچہ جنے تو میں سمجھوں گا کہ اس مرد نے جھوٹ کہا، اور اگر سیاہ رنگ کا موٹی سرین والا اور بڑی بڑی آنکھوں والا بچہ جنے تو میں سمجھوں گا کہ اس مرد نے اس عورت کے متعلق درست کہا،چنانچہ اس عورت کو ویسا ہی مکروہ شکل کا بچہ پیدا ہوا۔
کتاب سنن ابوداؤد جلد 2 حدیث نمبر 475
عبید اللہ بن مسلمہ، مالک، ابن شہاب، سہل بن سعد، حضرت سہل بن سعدالساعدی سے روایت ہے کہ عویمر بن اشقر عجلانی عاصم بن عدی کے پاس آئے اور بولے اے عاصم بتاؤ تمھاری کیا رائے ہے کہ اگر کوئی شخص اپنی بیوی کے پاس اجنبی مرد کو پائے (یعنی اس کو زنا کرتے ہوئے پائے) اور وہ اس کو قتل کر ڈالے تو کیا جواب میں بطور قصاص اس کو بھی قتل کیا جائے گا؟ (اور اگر اس کو قتل نہ کرے تو پھر) اس کے ساتھ کیا معاملہ کرے؟ اے عاصم برائے کرم میرے لیے یہ مسئلہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پوچھو پس عاصم نے یہ مسئلہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے دریافت کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو انتہائی ناگواری ہوئی اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اس ناگواری سے عاصم کو تکلیف پہنچی جب عاصم لوٹ کر گھر واپس آئے تو عویمر ان کے پاس آئے اور پوچھا اے عاصم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے (اس مسئلہ کے بارے میں) کیا ارشاد فرمایا؟ عاصم بولے اے عویمر تمھاری ذات سے مجھے کبھی بھلائی نہیں ملی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ مسئلہ پوچھنا اچھا نہیں لگا عویمر نے کہا بخدا میں تو یہ مسئلہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پوچھ کر ہی رہوں گا پھر عویمر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس گئے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم لوگوں کے درمیان بیٹھے ہوئے تھے عویمر نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مجھے اس شخص کے بارے میں بتلایئے جس نے اپنی بیوی کے پاس کسی اجنبی مرد کو پایا اور اس نے اس شخص کو قتل کر دیا تو کیا اس کو بھی قصاصا قتل کیا جائے گا؟ یا پھر وہ اس کے ساتھ کیا معاملہ کرے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا تیرے اور تیری بیوی کے بارے میں حکم نازل ہو گیا ہے جا اور اپنی بیوی کو لے کر آ۔ سہل کا بیان ہے کہ پھر ان دونوں نے لعان کیا اور میں دوسرے لوگوں کے ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مجلس میں موجود تھا جب دونوں لعان کر چکے تو عویمر نے کہا اگر میں اس کو پھر سے اپنے نکاح میں رکھوں تو جھوٹا قرار پاؤں پس عویمر نے کہا قبل اس کے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حکم صادر فرمائیں اپنی بیوی کو تین طلاقیں دیدیں ابن شہاب نے کہا پھر لعان کرنے والوں کے لیے یہی طریقہ رائج ہو گیا۔
کتاب سنن نسائی جلد 2 حدیث نمبر 1341
محمد بن سلمہ، ابن قاسم، مالک، ابن شہاب، حضرت سہل بن سعد ساعدی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ان سے حضرت عویمر عجلان نے بیان کیا کہ میں حضرت عاصم بن عدی رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوا اور ان سے عرض کیا کہ اگر کوئی شخص اپنی اہلیہ کے پاس کسی اجنبی آدمی کو دیکھے اور وہ شخص اس اجنبی شخص کو قتل کر دے تو اس قتل کرنے کے عوض کیا اس شخص کو بھی قتل کر دیں گے اگر وہ شخص ایسا نہ کرے؟ یعنی اس عورت کے شوہر کے واسطے کیا شرعی حکم ہے؟ تم یہ مسئلہ اے عاصم میری جانب سے حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے دریافت کرو چنانچہ پھر حضرت عاصم رضی اللہ عنہ نے یہ مسئلہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے دریافت کیا اگرچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو مذکورہ سوال ناگوار محسوس ہوا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس سوال کو برا خیال فرمایا اور سائل کے اس سوال کو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے معیوب خیال فرمایا حضرت عاصم رضی اللہ عنہ کو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ناگواری محسوس کر کے گراں محسوس ہوا اس وجہ سے حضرت عاصم رضی اللہ عنہ کو اس سوال سے افسوس ہوا اور ان کو اس سوال سے شرمندگی محسوس ہوئی اور خیال ہوا کہ میں نے خواہ مخواہ یہ مسئلہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے دریافت کیا بہرحال جس وقت حضرت عاصم رضی اللہ عنہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس سے واپس گھر تشریف لائے جب حضرت عویمر کہنے لگے کہ تم سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کیا ارشاد فرمایا ہے؟ حضرت عویمر سے حضرت عاصم نے کہا کہ تم نے مجھ کو اس طرح کے سوال کرنے کا خواہ مخواہ مشورہ دیا (یعنی مجھے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے یہ مسئلہ نہیں دریافت کرنا چاہیے تھا) اس پر حضرت عویمر نے جواب دیا کہ خدا کی قسم میں اس مسئلہ کو بغیر دریافت کیے نہیں رہوں گا۔ یہ کہہ کر حضرت عویمر حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف چل دئیے۔ اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم لوگوں کے درمیان تشریف فرما تھے انہوں نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اگر کوئی شخص اپنی بیوی کے ساتھ کسی دوسرے کو دیکھے اور اگر یہ شخص اس کو قتل کر دے تو کیا اس کو بھی قتل کر دیا جائے گا؟ آیا اس کے ساتھ (یعنی قاتل کے ساتھ) کس قسم کا معاملہ ہوگا؟ اس وقت آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا تمہارے واسطے حکم خداوندی نازل ہو چکا ہے تم جاؤ اور اس عورت کو لے کر آؤ۔ حضرت سہل رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ان دونوں نے لعان کیا یعنی حضرت عویمر اور ان کی اہلیہ محترمہ نے اور ہم لوگ بھی اس وقت آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نزدیک موجود تھے۔ جس وقت حضرت عویمر لعان سے فارغ ہو گئے تو فرمانے لگے کہ اگر اب میں اس خاتون کو مکان میں رکھوں تو میں جھوٹا اور غلط گو قرار پایا۔ چنانچہ انہوں نے اس کو اسی وقت تین طلاقیں دے ڈالیں اور انہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حکم کا انتظار بھی نہ فرمایا۔
کتاب سنن نسائی جلد 2 حدیث نمبر 1406
محمد بن معمر، ابوداؤد ، عبدالعزیز بن ابو سلمہ و ابراہیم بن سعد، زہری، سہل بن سعد، حضرت عاصم بن عدی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ عجلانی قبیلہ میں ایک شخص کہنے لگا کہ اے عاصم تم کیا کہتے ہو تم اس مسئلہ میں کیا کہہ رہے ہو کہ ایک شخص نے اپنی بیوی کے ساتھ کسی غیر مرد کو دیکھا اگر اس عورت کا شوہر اس غیر اور اجنبی شخص کو قتل کر دے تو کیا تم بھی اس کے شوہر کو قتل کر دو گے اے عاصم تم یہ مسئلہ میرے واسطے حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے دریافت کرلو چنانچہ حضرت عاصم نے حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے یہ مسئلہ دریافت کیا تو جناب رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس سوال کو دریافت کرنا ناگوار خیال فرمایا۔ پھر حضرت عویمر آئے اور ان سے کہنے لگے کہ اے عاصم تم نے کیا کہا۔ انہوں نے کہا کہ میں کیا کروں تمہاری بات ہی خراب ہے کیونکہ اس سوال سے حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ناگواری ظاہر فرمائی۔ حضرت عویمر نے کہا کہ خدا کی قسم میں یہ مسئلہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے دریافت کروں گا اور وہ جناب رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس پہنچے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے دریافت کیا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ خداوند قدوس نے تم سے متعلق حکم نازل فرمایا ہے اور تمہاری بیوی سے متعلق بھی ارشاد فرمایا ہے تم اس کو بلا کر لاؤ۔ سہیل نقل فرماتے ہیں کہ ہم لوگ جناب رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں تھے کہ جس وقت حضرت عویمر اس خاتون کو لے کر آئے اور دونوں نے آپس میں لعان کیا اور حضرت عویمر بیان فرمانے لگے اور قسم سے بیان فرمانے لگے کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم اگر میں اس کو اب رکھوں گا تو میں اس کو تہمت اور الزام لگانے والا قرار دوں گا یہ بات کہہ کر انہوں نے بیوی کو طلاق دے دی اور اپنے سے الگ کر دیا۔ ابھی حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حکم بھی نہیں فرمایا تھا ان کو عورت کے الگ کرنے کا ۔ راوی کہتا ہے کہ پھر یہی عادت اور طریقہ قرارپا گیا لعان والوں کے لیے یعنی لعان کے بعد شوہر اور بیوی الگ الگ ہو جائیں۔
کتاب سنن ابن ماجہ جلد 2 حدیث نمبر 223
ابومروان، محمد بن عثمان، ابراہیم بن سعید، ابن شہاب، حضرت سہل بن ساعدی سے مروی ہے کہ عویمر بن عجلانی عاصم بن عدی کے پاس آیا اور کہا نبی سے میرے لئے یہ مسئلہ دریافت کرو اگر کوئی مرد اپنی بیوی کیساتھ کسی بیگانے شخص کو دیکھے (صحبت کرتے ہوئے) پھر اسکو مار ڈالے تو کیا خود اسکے بدلے مارا جائے یا پھر کیا کرے؟ خیر عاصم نے نبی سے یہ مسئلہ پوچھا۔ آپ نے ایسے سوالوں کو برا جانا۔ پھر عویمر عاصم سے ملا اور پوچھا تو نے میرے لئے کیا کیا؟ عاصم نے کہا میں پوچھا لیکن تجھ سے مجھے کبھی کوئی بھلائی نہیں پہنچی۔ میں نے نبی سے پوچھا آپ نے برا محسوس کیا ان سوالوں کو۔ عویمر نے کہا اللہ کی قسم ! میں تو جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! کے پاس جاؤں گا اور آپ سے پوچھوں گا پھر وہ آیا نبی کے پاس تو دیکھا کہ آپ پر اسی بابت وحی نازل ہو رہی ہے۔ آخر آپ نے لعان کرایا۔ پھر عویمر نے کہا اللہ کی قسم ! اگر میں اب اس عورت کو اپنے ساتھ لے گیا تو گویا میں نے اس پر جھوٹی تہمت لگائی۔ آخر عویمر نے اسکو نبی کے بات کرنے سے پہلے ہی چھوڑ دیا۔ پھر یہ سنت ہوگئی لعان کرنے والے میں۔ اس کے بعد نبی نے فرمایا دیکھو اگر عویمر کی عورت کالا بچہ کالی آنکھوں والا بڑے سرین والا جنے تو میں سمجھتا ہوں کہ عویمر نے سچی تہمت لگائی اور اگر سرخ رنگ کا چہ جیسے وحرہ (کیڑا) تو میں سمجھتا ہوں کہ عویمر جھوٹا ہے۔ راوی نے کہا پھر اس عورت کا بچہ بری شکل کا پیدا ہوا۔
i love sahaba bhai
kewn aadhi bat ko pesh kertay haian
loogon khud faisdal karo keh yeh ahadees kis baray maian haian
aur mera bhi kahan use ker raha hai
loogoo aankhain kholo aur khud quran aur sahih ahadees parhna shroooh
karo
aur kissi kay dhokay maian mat aaio
[DOUBLEPOST=1364987749][/DOUBLEPOST]
یہ بات درست ہے ایک مجلس کی تین طلاقیں ایک ہی شمار کی جاتی ہیں لیکن یہ کوئی میرا ذاتی نظریہ نہیں بلکہ احادیث میں اسکا واضح ثبوت موجود ہے۔

اس سلسلے میں پہلی حدیث صحیح مسلم کی ہے جس میں صحابی رسول فرماتے ہیں کہ

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں، ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے پورے زمانہ خلافت میں اور عمر رضی اللہ عنہ سے دور خلافت کے ابتدائی دو سالوں تک اکھٹی تین طلاقوں کو ایک طلاق ہی شمار کیا جاتا تھا۔
اسکے علاوہ رکانہ رضی اللہ عنہ کی حدیث اس مسئلہ میں صریح نص ہے جس میں
جب رکانہ رضی اللہ عنہ نے اپنی بیوی کو طلاق دے دی تو بہت غمگین ہوئے پھر اسکا ذکر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا تم نے اسے کتنی طلاقیں دی ہیں۔ رکانہ رضی اللہ عنہ نے جواب دیا تین۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: کیا ایک مجلس میں؟ رکانہ رضی اللہ عنہ نے اثبات میں جواب دیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ ایک ہوئی ہے اگر تم چاہو تو رجوع کرلو۔ رکانہ رضی اللہ عنہ نے رجوع کرلیا۔
(مسند احمد، بیہقی)

امام أحمد بن حنبل رحمه الله (المتوفى241)نے کہا

حدثنا سعد بن إبراهيم ، حدثنا أبي ، عن محمد بن إسحاق ، حدثني داود بن الحصين ، عن عكرمة ، مولى ابن عباس ، عن ابن عباس ، قال : طلق ركانة بن عبد يزيد أخو بني المطلب امرأته ثلاثا في مجلس واحد ، فحزن عليها حزنا شديدا ، قال : فسأله رسول الله صلى الله عليه وسلم : كيف طلقتها ؟ قال : طلقتها ثلاثا ، قال : فقال : في مجلس واحد ؟ قال : نعم قال : فإنما تلك واحدة فأرجعها إن شئت قال : فرجعها فكان ابن عباس : يرى أنما الطلاق عند كل طهر.
مسند أحمد ط الميمنية: 1/ 265


علامہ البانی رحمہ اللہ بھی اس حدیث کو حسن قرار دیا چنانچہ فرماتے ہیں

فقال الإمام أحمد (١ / ٢٦٥) : حدثنا سعد بن إبراهيم حدثنا أبى عن محمد بن إسحاق: حدثنى داود بن الحصين عن عكرمة مولى ابن عباس عن ابن عباس قال: " طلق ركانة بن عبد يزيد أخو بنى مطلب امرأته ثلاثا فى مجلس واحد , فحزن عليها حزنا شديدا , قال: فسأله رسول الله صلى الله عليه وسلم: كيف طلقتها؟ قال: طلقتها ثلاثا , قال: فقال: فى مجلس واحد؟ قال: نعم , قال: فإنما تلك واحدة , فأرجعها إن شئت , قال: فرجعها , فكان ابن عباس يرى إنماالطلاق عند كل طهر ".ومن هذا الوجه أخرجه البيهقى ( ٧ / ٣٣٩) وقال: " وهذا الإسناد لا تقوم به حجة مع ثمانية رووا عن ابن عباس رضى الله عنهما فتياه بخلاف ذلك , ومع رواية أولاد ركانة أن طلاق ركانة كان واحدة ".
قلت: هذا الإسناد صححه الإمام أحمد والحاكم والذهبى وحسنه الترمذى فى متن آخر تقدم برقم (١٩٢١) , وذكرنا هنالك اختلاف العلماء فى داود بن الحصين وأنه حجة فى غير عكرمة , ولولا ذلك لكان إسناد الحديث لذاته قويا , ولكن لا يمنع من الاعتبار بحديثه والاستشهاد بمتابعته لبعض بنى رافع , فلا أقل من أن يكون الحديث حسنا بمجموع الطريقين عن عكرمة , ومال ابن القيم إلى تصحيحه وذكر أن الحاكم رواه فى مستدركه وقال إسناده صحيح , ولم أره فى " المستدرك " لا فى " الطلاق " منه , ولا فى " الفضائل " والله أعلم , وقال ابن تيمية فى " الفتاوى " (٣ / ١٨) : " وهذا إسناد جيد ".
وكلام الحافظ ابن حجر فى " الفتح " (٩ /٣١٦ ) يشعر بأنه يرجح صحته أيضا , فإنه قال: " أخرجه أحمد وأبو يعلى وصححه من طريق محمد بن إسحاق , وهذا الحديث نص فى المسألة لا يقبل التأويل الذى فى غيره من الروايات الآتى ذكرها
[إرواء الغليل للألباني: 7/ 145]۔
 
  • Like
Reactions: Star24 and *Muslim*

i love sahabah

TM Star
Sep 17, 2008
1,108
1,572
1,313
کیا بات ہے میرے بھائی کی
کون سی احادیث کہاں پیش کر رھے ہیں
پہلے آپ
لعان
کے بارے میں تو بتائیں کہ یہ کیا ہے جس باب سے آپ نے احادیث لی ہیں
اور اس حدیث کا مطلب بھی بتا دیں کہ اس میں جو حکم ہے وہ سب کے لیے ہے
یا
لعان
والوں کے لیے ہے
کتاب صحیح مسلم جلد 2 حدیث نمبر 1251
محمد بن رافع، عبدالرزاق، ابن جریج، ابن شہاب، حضرت سہل بن سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ انصار کا ایک آدمی نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں آیا اور اس نے عرض کیا اے اللہ کے رسول آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا کیا خیال ہے کہ ایک آدمی اپنی بیوی کے ساتھ کسی آدمی کو پاتا ہے پھر اس سے آگے وہی قصہ روایت کیا گیا ہے اور اس روایت میں یہ زائد ہے کہ دونوں میاں بیوی نے مسجد میں لعان کیا اور میں بھی وہاں موجود تھا اور اس حدیث میں یہ بھی ہے کہ اس سے پہلے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان کو حکم فرماتے اس آدمی نے اپنی اس عورت کو تین طلاقیں دے دیں اور نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی موجودگی ہی میں اس سے جدا ہوگیا تو نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہر لعان کرنے والوں کے درمیان اسی طرح جدائی ہو گی۔
تمام مسلمانوں کو السلامُ علیکم

لولی صاحب صرف کاپی پیسٹ کرنے سے جواب نہیں بنتا۔
آپ نے کہا کہ یہ احادیث باب لعان سے لی گئی ہیں تو جناب اگر باب کی ہی بات ہے تو اوپر میں نے بخاری شریف کی حضرت عائشہ رضی اللہ کی حدیث پیش کی جو کہ باب من اجاز طلاق الثلاث سے ہیں تو آپ امام بخاری کے دئیے گئے اس باب سے تسلیم کر لو کہ تین طلاق تین ہی ہوتی ہیں بھلے جیسے بھی ہوں۔

حضرت عویمر رضی اللہ عنہ کی حدیث میں واضح ہے کہ انہوں نے لعان کے بعد تین طلاق دی تھی جس کو نبی کریم ﷺ نے نافذ کیا تھا۔
اگر جدائی صرف لعان سے ہی ہوتی تو نبی کریم ﷺ واضح کرتے کہ جدائی لعان سے ہوگئی ہے اس لئےتین طلاق کی ضرورت نہیں لیکن اس روایت میں کہیں بھی ایسا نہیں ہے کہ نبی کریم ﷺ نے حضرت عویمر رضی اللہ عنہ کی تین طلاق دینے پہ اعتراض کیا ہو یا منع کیا ہو بلکہ نبی کریم ﷺ کا وہ تین طلاق کو نافذ کرنا اور اس پہ کوئی اعتراض نہ کرنا ہی اس بات کا ثبوت ہے کہ وہ تین طلاق ہو گئی تھی جو اسی وقت ایک مجلس میں حضرت عویمر رضی اللہ عنہ نے دی تھی۔
اگر لعان کے بعد ان تین طلاق کی ضرورت نہیں تھی تو ثبوت دکھاؤ کہ نبی کریم ﷺ نے اس وقت ان تین طلاق پہ اعتراض کیا ہو؟

یہ بات درست ہے ایک مجلس کی تین طلاقیں ایک ہی شمار کی جاتی ہیں لیکن یہ کوئی میرا ذاتی نظریہ نہیں بلکہ احادیث میں اسکا واضح ثبوت موجود ہے۔

اس سلسلے میں پہلی حدیث صحیح مسلم کی ہے جس میں صحابی رسول فرماتے ہیں کہ


رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں، ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے پورے زمانہ خلافت میں اور عمر رضی اللہ عنہ سے دور خلافت کے ابتدائی دو سالوں تک اکھٹی تین طلاقوں کو ایک طلاق ہی شمار کیا جاتا تھا۔
لولی اس روایت میں یہ جو ترجمہ کیا ہے کہ اکھٹی تین طلاقوں کو ایک طلاق ہی شمار کیا جاتا تھا“ اس روایت میں یہ اکٹھی تین طلاق کا ترجمہ جوکیا ہے وہ کس لفظ کا ترجمہ ہے؟
حدیث_مسلم کے قول سے تین طلاق سے مراد ہر قسم کی تین طلاقیں ہیں تو تین الگ الگ "طهر" میں دی گئی تین طلاقیں بھی کیا ایک ہونگی؟
شارح_مسلم امام نووی (٦٣١-٦٧٦ھ ) رحمہ اللہ فرماتے ہیں: المراد أن المعتاد في الزمن الأول کان طلقة واحدة وصار الناس في زمن عمر رضي اللہ عنہ یوقعون الثلاث دفعة فنفذہ فعلی ھذا یکون إخبارا عن اختلاف عادة الناس لا عن تغیر حکم في مسئلة واحدة. یعنی مراد یہ ہے کہ پہلے ایک طلاق کا دستور تھا اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانے میں لوگ تینوں طلاقیں بیک وقت دینے لگے تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے انھیں نافذ کیا تو اس طور پر یہ حدیث لوگوں کی "عادتوں" کے بدل جانے کی خبر ہے نہ کہ مسئلہ واحدہ میں "حکم" کے بدلنے کی اطلاع ہے۔(شرح مسلم: ج۱ ص۴۷۸)؛

تشریح : ٢

امام بخاری و مسلم کے استاد امام ابن ابی شیبہ نے، پھر امام ابو داود اور امام بیہقی نے اس قول میں یہ بھی روایت کیا ہے کہ یہ اس عورت کے بارے میں ہے جس کی رخصتی نہیں ہوئی. امام نسائی نے بھی یہی باب بندھا ہے؛ (بیوی سے دخول/جماع سے قبل تین علیحدہ طلاقیں دینا)؛
[السنن الكبرى للنسائي » كِتَابُ الطَّلاقِ » طَلاقِ الثَّلاثِ الْمُتَفَرِّقَةِ قَبْلَ الدُّخُولِ ...، رقم الحديث: 5411 (5569)]
اور ایسی عورت کے بارے میں خود حضرت عبدللہ بن عباس رضی الله عنہ کی وضاحت (ابن_ابی شیبہ : ٥/٢٥) پر موجود ہے کہ اگر اس کو یوں کہا جاۓ تجھے طلاق، طلاق، طلاق، تو اس کی ایک ہی طلاق پڑتی ہے (اس صورت میں دوبارہ نکاح بغیر حلالہ_شرعی کے جائز ہے اور سوچ و بچار کی گنجائش ہے) اور اگر یوں اس کو طلاقیں دی جائیں کہ تجھے تین طلاق تو اس سے تین طلاقیں ہی واقع ہوجاتی ہیں، اب بغیر حلالہ_شرعی کے اس کے نکاح نہیں ہوسکتا، یہ وہ جلدبازی ہے جس میں سوچ بچار کا موقع نہیں رہتا

:امام ابن_رشد مالکی رح (520هـ-595هـ) فرماتے ہیں
وقد احتج من انتصر لقول الجمهور بأن حديث ابن عباس الواقع في الصحيحين إنما رواه عنه من أصحابه طاوس ، وأن جلة أصحابه رووا عنه لزوم الثلاث ، منهم سعيد بن جبير ، ومجاهد ، وعطاء ، وعمرو بن دينار وجماعة غيرهم ، وأن حديث ابن إسحاق وهم ، وإنما روى الثقات أنه طلق ركانة زوجه البتة لا ثلاثا .

جمہور (علماء کی راۓ و مذھب) کی حمایت کرنے والے یہ استدلال کرتے ہیں کہ صحیحین میں موجود حضرت ابن_عباس (رض) کی حدیث کی روایت ان کے اصحاب میں سے "طاوس" نے کی ہے، جبکہ ان کے بیشتر اصحاب نے، جن میں سعید بن جبیر رح ، مجاہد رح ، عطاء رح اور عمرو بن دینار رح ہیں اور ان کے علاوہ ایک جماعت نے تین طلاقوں کے واقع ہوجانے کا قول نقل کیا ہے اور (رکانہ کے تین طلاق کے ایک ہونے کی بواسطہ عکرمہ کے حضرت ابن_عباس کی بیان شدہ) ابن_اسحاق کی حدیث "وہم" ہے، ثقہ راویوں کے الفاظ تو یہ ہیں کہ رکانہ نے اپنی بیوی کو طلاق_بتھ (طلاق_بائن) دی تھی، اس میں تین کے الفاظ نہیں ہیں.
[بداية المجتهد ونهاية المقتصد » كتاب الطلاق]

راوی حدیث حضرت عبد اللہ ابن عباس نے خود تین طلاقوں کے نفاذ کا فتویٰ دیا ہے، جیساکہ مذکور ہوچکا ہے۔
علامہ ابن قیم نے بھی باوجود اس تشدد وتصلب کے جوان کو اس مسئلہ میں تھا، حضرت ابن عباس کے اس فتویٰ ”ایک مجلس میں تین طلاقیں تین ہیں اور اس کے بعد رجعت جائز نہیں“ سے انکار نہیں کیا، بلکہ اس فتویٰ کے ثابت ہونے کا صاف اقرار کیا ہے۔ چنانچہ اغاثة اللفہان میں فرماتے ہیں:
”فقد صح بلاشک ابن مسعود وعلی ابن عباس الالزام بالثلاث ان اوقعہا جملة“۔ (ص:۱۷۹)
اورچونکہ یہ مسئلہ حلال وحرام کے متعلق ہے، اگر واقعی تین کو ایک سمجھا جاتا تو اس کے راوی صرف حضرت ابن عباس ہی کیوں ہیں، ان کے علاوہ دوسرے صحابہ کرام سے اس کے بارے میں کوئی روایت نہیں ہے، جبکہ ان سے بڑے خلیفہ راشد حضرت عمر فاروق اس کے برخلاف فیصلہ فرماتے ہیں اور یہ صحابہ کرام کے سامنے کی بات ہے اور ایک صحابی نے بھی اس حکم کے خلاف نہیں کیا جس سے اس مسئلہ پر ان کا اجماع معلوم ہوتا ہے

 

i love sahabah

TM Star
Sep 17, 2008
1,108
1,572
1,313

اسکے علاوہ رکانہ رضی اللہ عنہ کی حدیث اس مسئلہ میں صریح نص ہے جس میں
جب رکانہ رضی اللہ عنہ نے اپنی بیوی کو طلاق دے دی تو بہت غمگین ہوئے پھر اسکا ذکر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا تم نے اسے کتنی طلاقیں دی ہیں۔ رکانہ رضی اللہ عنہ نے جواب دیا تین۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: کیا ایک مجلس میں؟ رکانہ رضی اللہ عنہ نے اثبات میں جواب دیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ ایک ہوئی ہے اگر تم چاہو تو رجوع کرلو۔ رکانہ رضی اللہ عنہ نے رجوع کرلیا۔
(مسند احمد، بیہقی)


لولی آپ نے حدیث رکانہ میں بیہقی کا حوالہ دیا تو جناب خود دیکھ لیجیئے کہ امام بیہقی یہ روایت بیان کرنے کے بعد کیا کہتے ہیں۔
یہ روایت بیان کرنے کے بعد امام بیہقی کہتے ہیں کہ
" اس سند کو حجت نہیں بنایا جا سکتا کیونکہ حضرت ابن عباس رضی اللہ سے آٹھ فتاوی اس روایت کے خلاف ہیں اور رکانہ رضی اللہ کی اولاد کے مطابق انہوں نے صرف ایک طلاق دی تھی"
( سنن الکبری للبیہقی، جلد 7 صفحہ 555)

جب امام بیہقی خود سند کو قابل قبول نہیں سمجھتے اور ان کی روایت سے واضح ہوا کہ رکانہ کی اولاد کے مطابق ایک طلاق دی تھی تو آپ کیسے اس کو تین ثابت کرتے ہیں۔
رکانہ کہ ہی روایت ابو داؤد سے بیان کرنے کے بعد امام بیہقی لکھتے ہیں کہ
رکانہ نے اپنی بیوی کو طلاق البتہ دی تھی جس کو نبی کریم ﷺ نے ایک قرار دیا تھا"
( سنن الکبری للبیہقی، جلد 7 صفحہ 555)

اور طلاق البتہ میں ایک کی نیت بھی ہو سکتی ہے اور تین کی بھی اور ابو داؤد کی ایک روایت کے مطابق نبی کریم ﷺ نے رکانہ رضی اللہ سے پوچھا تھا کہ تمہاری نیت کیا ہے تو انہوں نے کہا تھا کہ اللہ کی قسم میری نیت ایک طلاق کی تھی تو نبی کریم ﷺ نے ان کو بیوی واپس لوٹا دی تھی کیونکہ ایک طلاق ہوئی تھی اور رکانہ رضی اللہ نے دوسری طلاق حضرت عمر رضی اللہ کے دور میں دی تھی اور تیسری طلاق حضرت عثمان رضی اللہ کے دور میں دی تھی۔
( ابو داؤد جلد ا صفحہ 300)

جس کتاب سے تم نے روایت بیان کی وہی مصنف اس کو نہیں مانتا تو تم کیسے ثابت کرتے ہو؟
talaq behqi.jpg
اسی رکانہ والی روایت کے مطابق امام نووی بیان کرتے ہیں کہ
" یہ روایت ضعیف ہے اور مجھولیوں کی روایت ہے اور رکانہ کے متعلق البتہ والی روایت ہی صحیح ہے اور البتہ میں ایک اور تین دونوں احتمال ہیں۔
( نووی ، شرح مسلم، صفحہ 926)
امام نووی تو حضرت ابن عباس رضی اللہ کی روایت بیان کرنے کے بعد یہاں تک فرماتے ہیں کہ
" امام شافعی، امام مالک، امام ابو حنیفہ اور امام احمد اور جمھور علماء کا موقف ہے کہ تین طلاق تین ہی ہوتی ہیں اور صرف طاؤس اور بعض اہل ظاھر کا موقف ہے کہ ایک ہوتی ہے"
( نووی ، شرح مسلم، صفحہ 926)
nowi.jpg
مسند احمد کے حوالے سے بھی یہ روایت ضعیف ہے۔
علامہ خطابی کہتے ہیں کہ اس کی سند مجہول ہے اور حجت بننے کے قابل نہیں کیونکہ ابو داؤد نے روایت کی ہے کہ رکانہ نے اپنی بیوی کو طلاق بتہ دی تھی،
علامہ خطابی نے تو یہاں تک کہا ہے کہ امام احمد بن حنبل رح سے اس روایت کے سارے طریق ضعیف ہیں۔
(مسند احمد بن حنبل، جلد 4 صفحہ 216)
حنبلی مسلک کے مشہور عالم ابن قدامہ رح نے بھی یہی فرمایا ہے کہ امام احمد سے حدیث رکانہ کے سارے طریق ضعیف ہیں۔
(مغنی ابن قدامہ، جلد 10 صفحہ 366)، (مسند احمد بن حنبل، جلد 4 صفحہ 216)
امام ترمذی فرماتے ہیں کہ اس روایت کو میں نہیں جانتا اور میں نے بخاری سے پوچھا تو انہوں نے کہا کہ مضطرب ہے۔
(مسند احمد بن حنبل، جلد 4 صفحہ 217)
اس کے علاوہ اس کا راوی محمد بن اسحاق بھی ضعیف ہے۔ اس کے حالات بھی پڑھ لیں۔
masnad 1.jpg
masnad 2.jpg
rakana zaeef.jpg
[DOUBLEPOST=1365025551][/DOUBLEPOST]
قَالَ الْاِمَامُ الْحَافِظُ الْمُحَدِّثُ الْکَبِیْرُ مُحَمَّدُ بْنُ اِسْمَاعِیْلَ الْبُخَارِیُّ حَدَّثَنِیْ مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ قَالَ حَدَّثَنَا یَحْیٰ عَنْ عُبَیْدِ اللّٰہِ قَالَ حَدَّثَنَا الْقَاسِمُ بْنُ مُحَمَّدٍ عَنْ عَائِشَۃَاَنَّ رَجُلاً طَلَّقَ اِمْرَأتَہُ ثَلٰثاً فَتَزَوَّجَتْ فَطَلَّقَ فَسُئِلَ النَّبِیُّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اَتَحِلُّ لِلْاَوَّلِ؟ قَالَ:لَاحَتّٰی یَذُوْقَ عُسَیْلَتَھَا کَمَا ذَاقَ الْاَوَّلُ۔
(صحیح بخاری ج2ص791باب من اجاز طلاق الثلاث)
ترجمہ: ام المومنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ ایک شخص نے اپنی بیوی کو تین طلاقیں دے دیں،اُس نے کسی اورمرد سے نکاح کیااور(ہمبستری سے پہلے)اسے طلاق دے دی۔نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیاگیاکہ وہ عورت اپنے پہلے خاوند کے لیے حلال ہے؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’نہیں!جب تک کہ دوسرا خاوند اس سے ہمبستری نہ کرے (اور لطف اندوز نہ ہوجائے ) جیساکہ پہلا خاوند ہوا۔
اس حدیث میں ”طلق امراتہ ثلاثًا“ کا جملہ اس کا مقتضی ہے کہ تین طلاق اکھٹی اور دفعة دی گئیں۔ اسی طرح حافظ ابن حجر عسقلانی فرماتے ہیں کہ اس حدیث سے تین طلاقیں اکٹھی واقع ہوجانے پر استدلال ہے۔ چنانچہ فرماتے ہیں:

”وہی بایقاع الثلاث اعم من ان تکون مجمعةً او متفرقةً“

(فتح الباری ج:۹/۳۶۲ط ادارة بحوث العلمیة
قَالَ الْاِمَامُ الْحَافِظُ عَلِیُّ بْنُ عُمَرَ الدَّارَقُطْنِیُّ نَاعَلِیُّ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ عُبَیْدِ الْحَافِظِ نَامُحَمَّدُ بْنُ شَاذَانَ الْجَوْھَرِیُّ نَامُعَلّٰی بْنُ مَنْصُوْرٍ نَاشُعَیْبُ بْنُ رُزَیْقٍ أنَّ عَطَائَ الْخُرَاسَانِیَّ حَدَّثَھُمْ عَنِ الْحَسَنِ قَالَ نَاعَبْدُاللّٰہِ بْنُ عُمَرَ فَقُلْتُ یَارَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ! رَأیْت لَوْ اَنِّیْ طَلَّقْتُھَا ثَلاَثاً کَانَ یَحِلُّ لِیْ أنْ اُرَاجِعَھَا؟ قَالَ لَا کَانَتْ تَبِیْنُ مِنْکَ وَتَکُوْنُ مَعْصِیَۃً۔
(سنن دارقطنی ج4ص20 حدیث نمبر3929)
ترجمہ: حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے حیض کی حالت میں اپنی بیوی کو ایک طلاق دے دی پھر ارادہ کیا کہ باقی دوطلاقیں بھی بقیہ دوحیض(یا طہر) کے وقت دے دیں۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کی خبرہوئی توآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے فرمایا:’’تجھے اللہ تعالی نے اس طرح تو حکم نہیں دیا تو نے سنت کی خلاف ورزی کی ہے سنت تو یہ ہے کہ جب طہر(پاکی) کا زمانہ آئے تو ہر طہرکے وقت اس کوطلاق دے۔ وہ فرماتے ہیں کہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے حکم دیا کہ تو رجوع کرلے! چنانچہ میں نے رجوع کر لیا پھرآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا:’’ جب وہ طہر کے زمانہ میں داخل ہو تو اس کوطلاق دے دینا اورمرضی ہو تو بیوی بناکررکھ لینا ۔ ‘‘ اس پرمیں نے عرض کیا: یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! یہ تو بتلائیں کہ اگر میں اس کو تین طلاقیں دے دیتا تو کیا میرے لیے حلال ہوتا کہ میں اس کی طرف رجوع کر لیتا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’نہیں وہ تجھ سے جدا ہو جاتی اوریہ (کام کرنا ) گناہ ہوتا۔
تین طلاقوں کے تین واقع ہونے پر اجماع امت

1: قَدْ قَالَ الْاِمَامُ أَبُوْبَکْرِ ابْنُ الْمُنْذِرِ النِّیْشَابُوْرِیُّ: وَأجْمَعُوْا عَلٰی أَنَّ الرَّجُلَ اِذَاطَلَّقَ اِمْرَأتَہُ ثَلاَثًا أَنَّھَالَاتَحِلُّ لَہُ اِلَّابَعْدَ زَوْجٍ عَلٰی مَا جَائَ بِہ حَدِیْثُ النَّبِیِّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ثُمَّ قَالَ:أَوْ اَجْمَعُوْاعَلٰی أَنَّہُ اِنْ قَالَ لَھَا أَنْتِ طَالِقٌ ثَلاَثاً اِلَّا ثَلاَثاً اَنَّھَا اُطْلِقَ ثَلاَ ثًا۔
(کتاب الاجماع لابن المنذر ص92)
ترجمہ: امام ابن المنذر رحمہ اللہ نے فرمایا :’’فقہاء اورمحدثین امت نے اس پر اجماع کیا ہے کہ جب مرد اپنی بیوی کو تین طلاقیں دے تو وہ اس کے لیے حلال نہیں رہتی۔ ہاں! جب وہ دوسرے شوہر سے نکاح کرلے تواب حلال ہو جاتی ہے کیونکہ اس بارے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث وارد ہوئی ہے ۔ ابن المنذر رحمہ اللہ نے فرمایا: ’’ فقہاء ومحدثین کا اس پر بھی اجماع ہے کہ اگر شوہر نے بیوی کو کہا اَنْتِ طَالِقٌ ثَلَاثاً اِلَّا ثَلَاثاً (تجھے تین طلاقیں ہیں مگر تین طلاق) تو تین ہی واقع ہوں گی۔‘‘

2: قَالَ الْاِمَامُ الْحَافِظُ الْمُحَدِّثُ الْفَقِیْہُ أَبُوْجَعْفَرٍ أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدِ الطَّحَاوِیُّ مَنْ طَلَّقَ اِمْرَأتَہُ ثَلاَثاً فَاَوْقَعَ کُلاًّ فِیْ وَقْتِ الطَّلَاقِ لَزِمَہُ مِنْ ذٰلِکَ…فَخَاطَبَ عُمَرُ بِذٰلِکَ النَّاسَ جَمِیْعًا وَفِیْھِمْ أَصْحَابُ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَرَضِیَ اللّٰہُ عَنْھُمُ الَّذِیْنَ قَدْعَلِمُوْامَاتَقَدَّمَ مِنْ ذٰلِکَ فِیْ زَمَنِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَلَمْ یُنْکِرْہُ عَلَیْہِ مِنْھُمْ مُنْکِرٌوَلَمْ یَدْفَعْہُ دَافِعٌ فَکَاَنَّ ذٰلِکَ اَکْبَرُ الْحُجَّۃِ فِیْ نَسْخٍ مَاتَقَدَّمَ مِنْ ذٰلِکَ لِاَنَّہُ لَمَّاکَانَ فِعْلُ اَصْحَابِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ جَمِیْعاً فِعْلاً یَجِبُ بِہِ الْحُجَّۃُ کَانَ کَذٰلِکَ اَیْضاً اِجْمَاعُھُمْ عَلَی الْقَوْلِ اِجْمَاعاً یَجِبُ بِہِ الْحُجَّۃُ۔
(سنن الطحاوی ج2ص34باب الرجل یطلق امرأتہ ثلاثاً معا،ونحوہ فی مسلم ج1 ص477 )
ترجمہ: محدث کبیر امام ابوجعفر طحاوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:’’جس نے اپنی بیوی کو تین طلاقیں دیں اورتینوں کو طلاق کے وقت واقع بھی کردیا تو اس سے لازم ہو جائیں گی (دلیل اس کی حضرات صحابہ رضی اللہ عنہم کا اجماع ہے کہ) جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے تمام لوگوں کو اس چیز کے متعلق خطاب فرمایا کہ تین طلاقیں تین ہی ہوں گی اوران لوگوں میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابی بھی موجود تھے جو حضور علیہ السلام کے عہد مبارک میں اس معاملہ سے بخوبی واقف تھے لیکن کسی نے بھی حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی اس بات کا انکار نہ کیا اورنہ ہی کسی نے اسے رد کیا۔ تو یہ سب سے بڑی دلیل ہے کہ اس سے پہلے جو کچھ معاملہ رہا، منسوخ ہے۔ اس لیے کہ جس طرح تمام صحابہ رضی اللہ عنہم کا فعل اتنی قوت رکھتا ہے کہ اس سے دلیل پکڑنا واجب ہے اسی طرح حضرات صحابہ رضی اللہ عنہم کاکسی بات پر اجماع کرنا بھی حجت ہے (جیساکہ اس مسئلہ طلاق میں ہے )

3: قَالَ الْاِمَامُ الْحَافِظُ الْمُحَدِّثُ الْمُفَسِّرُ الْقَاضِیُّ ثَنَائُ اللّٰہِ الْعُثْمَانِیُّ فِیْ تَفْسِیْرِ ھٰذِہِ الْآیَۃِ{أَلطَّلاَقُ مَرَّتٰنِ}لَاَنَّ قَوْلَہُ أَلطَّلَاَقُ عَلٰی ھٰذَا التَّاوِیْلِ یُشْمِلُ الطَّلَقَاتِ الثَّلاَثَ اَیْضاً…لٰکِنَّھُمْ اَجْمَعُوْا عَلیٰ اَنَّہُ مَنْ قَالَ لِاِمْرَأتِہِ أَنْتِ طَالِقٌ ثَلاَثاً یَقَعُ ثَلاَثٌبِالْاِجْمَاعِ ۔
(تفسیر مظہری ج2ص300)
ترجمہ: مفسر قرآن قاضی ثناء اللہ پانی پتی رحمہ اللہ آیت {اَلطَّلَاقُ مَرَّتٰنِ} کی تفسیر میں فرماتے ہیں:’’اللہ تعالیٰ کا فرمان ’’اَلطَّلَاقُ‘‘اس تفسیر کے مطابق (جو پہلے ذکر کی ہے) تین طلاقوں کو بھی شامل ہے۔ مزید فرماتے ہیں کہ فقہاء ومحدثین نے اس بات پر اجماع کیاہے کہ جس شخص نے اپنی بیوی کوکہا’’اَنْتِ طَالِقٌ ثَلَاثاً ‘‘(تجھے تین طلاقیں ہیں) تو بالاجماع تین ہی واقع ہوجائیں گی۔
 

lovelyalltime

I LOVE ALLAH
TM Star
Feb 4, 2012
1,656
1,533
913
حنبلی مسلک کے مشہور عالم ابن قدامہ رح نے بھی یہی فرمایا ہے کہ امام احمد سے حدیث رکانہ کے سارے طریق ضعیف ہیں۔
(مغنی ابن قدامہ، جلد 10 صفحہ 366)، (مسند احمد بن حنبل، جلد 4 صفحہ 216)

سلام
جب آپ مسلک کی بات کر رھے ھو تو یہ بھی پڑھ لو




































































































 

lovelyalltime

I LOVE ALLAH
TM Star
Feb 4, 2012
1,656
1,533
913
سلام


طلاق کے مسلے پر کافی عرصہ سے بحث چل رہی ہے

اس لیے ضرورت ہے کہ یہاں بھی تحقیق پیش کی جا ے


بسم اللہ الرحمن الرحیم

احکام طلاق اور شبہات کا ازالہ

*مرد و عورت کو باہم حسن معاشرت کا حکم ہے*

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے ’’ ۚ وَعَاشِرُوهُنَّ بِالْمَعْرُوفِ ۔۔۔‘‘
(النساء آیت 19)
’’عورتوں کے ساتھ (معروف طریقے پر) بھلائی کا معاملہ کرو۔‘‘
’’ وَلَهُنَّ مِثْلُ الَّذِي عَلَيْهِنَّ بِالْمَعْرُوفِ ۚ وَلِلرِّجَالِ عَلَيْهِنَّ دَرَجَةٌ ‘‘
(البقرہ آیت 228)
جیسے عورتوں پر مردوں کے حقوق ہیں ایسے ہی عورتو ں کے بھی ان (مردوں) پر دستور کے موافق حقوق ہیں ، مردوں کو عورتوں پر برتری حاصل ہے۔
’’ مَتَاعًا بِالْمَعْرُوفِ ۖ حَقًّا عَلَى الْمُحْسِنِينَ۔۔۔‘‘
(البقرہ آیت 236)
’’نیک لو گوں پر حق ہے کہ (عورتوں کے ساتھ ) اچھا سلوک کریں ۔‘‘
ان آیا ت سے بالکل واضح طور پر یہ بات سمجھی جا سکتی ہے کہ مرد و عورت میں سے ہر ایک پر کچھ حقوق اور ذمہ داریاں عائد ہو تی ہیں اور وہ ان سے عہدہ بر آ ہو کر ہی بارگاہ الہٰی میں سرخرو ہو سکتے ہیں ۔
مز ید تفصیل کے لئے سورہ بقرہ، سورہ طلاق بمع تفسیر اور صحیح بخاری و صحیح مسلم وغیرہ کا مطالعہ کرنا چاہئے۔
*ناچاقی کی صورت میں شرعی طریقہ کار*

اگر قصور عورت کا ہو تو، عورت کو نصیحت کی جائے،رہن سہن میں علیحدگی اختیار کرکے تنبیہ کی جائے اور آخری صورت یہ بھی ہو سکتی ہے کہ تادیبی مار بھی ماری جا سکتی ہے جوکہ بہت زیادہ تکلیف وپریشانی او ر تنفر کا باعث نہ بنے۔
سورہ نساء آیت ۳۴۔ترجمہ:’’اور جن عورتوں کی نافرمانی اور شرارتوں کا تمہیں خوف و خطرہ ہو تو انہیں نصیحت کردو اور ان کو اپنے بستروں سے علیحدہ کر دو اور تم انہیں تادیبی ضرب کی سزا بھی دو (اس طرح ) اگر و ہ راہ راست پر آکر تمہاری فرمانبرداری کریں تو بے جا الزام لگانے کا راستہ تلاش نہ کرو۔
اور قصور دونوں ہی طرف سے ہو تو اس کا طریقہ کار یہ ہے کہ ایک حکم (وکیل و منصف ) مرد کی طرف سے اور ایک حکم( وکیل و منصف) عورت کی طرف سے مقرر کئے جائیں تاکہ وہ مصا لحت کی بھرپور کو شش کریں کیونکہ انکی کو شش اصلاح سے ہی اللہ تعالیٰ صلح کی توفیق دے گا۔
(سورہ نساء آیت 35)
*عدم نباہ کی صورت میں جدائی کی شکل شرعی طلاق ہے*

عدم نباہ کی صورت میں شوہر اور بیوی کے درمیان رشتہ مناکحت ختم کرنے کی ایک صورت طلاق ہے اور طلاق دینے کا اول حق عورت کے شوہر کا ہے۔
’’يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ إِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَاءَ فَطَلِّقُوهُنَّ لِعِدَّتِهِنَّ ۔۔۔‘‘
(سورہ الطلاق آیت ۱)
’’يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا نَكَحْتُمُ الْمُؤْمِنَاتِ ثُمَّ طَلَّقْتُمُوهُنَّ ۔۔۔‘‘
(سورہ الاحزاب آیت 49)
مذکورہ آیات سے حکم طلاق بالکل واضح ہے۔بعد از نکاح معقول وجو ہات کی بنا ء پر شوہر اپنی بیوی کو شرعی طریقہ پر طلاق دے سکتا ہے۔
*طلاق کی جائز صورت*

۱
۔صرف ایک طلاق دی جائے،یعنی شوہر بیوی سے کہے کہ میں نے تجھے طلاق دی، اس پر طلاق واقع ہو جائیگی ، بس ایک ہی طلاق دینے پر اکتفا کرے۔
(سورہ الطلاق آیت ۱)
صحا بہ کرامؓ اس بات کو پسند فرماتے تھے کہ آدمی اپنی بیوی کو صرف ایک طلاق دے اور اسے چھوڑے رکھے یہاں تک کہ اسے تین حیض آجائیں ۔
(فتح القدیر ابن الھمام بحوالہ ایک مجلس میں تین طلاقیں اور اس کا شرعی حل۔دارالسلام)
۲
۔طلاق حالت طہر میں دی جائے جس میں شوہر نے مجامعت نہ کی ہو۔
(صحیح بخاری ، کتاب الطلاق)
حالت حیض میں طلاق دینا جائز نہیں ہے۔
(بخاری و مسلم ۔کتاب الطلاق)
حالت حمل میں طلاق دی جاسکتی ہے۔
(صحیح مسلم)
۳
۔طلاق دیتے وقت دو گواہ بنالینا مستحب ہے۔
(الطلاق آیت ۲)
۴
۔اس طرح جب ایک طلاق دی جائیگی تو دوران عدت شوہر رجوع کرنے کا حق دار ہوتا ہے۔
(سورہ البقرۃ آیت ۲۲۸)
بصورت دیگر مکمل عدت گزرنے پر عورت مرد سے جدا ہو جائیگی البتہ کیو نکہ ایک ہی طلاق واقع ہو ئی ہے لہٰذا عدت کے بعد دونو ں تجدید نکاح کے ذریعہ دوبارہ ازدواجی بندھن میں جڑ سکتے ہیں ۔
(سورۃ البقرۃ آیت۲۳۲)
۵
۔طلاق کے بعد بیوی شوہر کے گھر ہی میں عدت گزارے ، شوہر اسے گھر سے نہ نکالے اور نہ وہ خود ہی گھر سے عدت پوری ہونے سے قبل نکلے۔
(سورہ الطلاق آیت۱)
فی زمانہ جو طلاق کے فوراً بعد عورت کو جو گھر سے نکال دیا جا تا ہے یا وہ خود ہی نکل کھڑی ہو تی ہے یہ عمل خلاف قرآن ہو نے کی وجہ سے ناجائز ہے، جبکہ عورت کا اپنے شوہر ہی کے گھر میں رہنا اس کے جلد رجوع کا باعث ہو سکتا ہے بشرطیکہ طلاق ایک یا دو ہی (شرعی طور پر ) واقع ہوئی ہوں۔
*عدت کا بیا ن*

۱
۔عام حالات میں مطلقہ عورت کی عدت تین حیض ہے۔
(البقرۃ :۲۲۸)
۲
۔جن عورتوں کو حیض نہ آتا ہو انکی عدت تین ماہ ہے۔
(الطلاق آیت:۴)
۳
۔حمل والی مطلقہ عورت کی عدت وضع حمل ہے، یعنی بچے کی پیدائش پر عدت ختم ہو جائیگی ۔
(الطلاق آیت : ۴)
۴
۔مطلقہ غیر مدخولہ پر کوئی عدت نہیں ہے۔
(سورۃ الاحزاب آیت:۴۹)
*طلاق کی ناجائز صورتیں*

۱
۔حالت حیض میں طلاق دینا ۔
(صحیح بخاری ، کتاب الطلاق)
۲
۔حالت طہر میں صحبت کے بعد طلاق دینا ۔
(صحیح بخاری ، کتاب الطلاق)
۳
۔ایک مجلس میں تین طلاقیں ایک ساتھ دینا ۔
(سنن النسائی ، کتاب الطلاق)
حالت نفاس (پیدائش کے بعد آنے والے خون کی حالت ) میں بھی طلاق دینا جائز نہیں کیونکہ حیض و نفاس کا حکم ایک ہی ہے اور یہ حالت طہر (پاکی) بھی نہیں ہے۔
*ناجائز طلاق کی ایک صورت جبری طلاق بھی ہے*

رسول اللہ ﷺ نے فرمایا
اللہ تعالیٰ نے میری خاطر میری امت کو غلطی ، بھو ل اور وہ کام معاف کر دئے ہیں جن پر انہیں مجبور کر دیا گیا ہو۔
(ابن ماجہ ۲۰۴۳)
مزید فرمایا
زبردستی میں نہ طلاق واقع ہوتی ہے اور نہ ہی غلام آزاد ہو تا ہے۔
(ابو داؤد ۲۱۹۳، ابن ماجہ ۲۰۴۶)
نیز صحیح بخاری کتا ب الطلاق باب الطلاق فی الاغلاق والمکرہ والسکران۔۔۔ دیکھئے۔
ان دلائل سے واضح ہے کہ زبردستی (جبری) طلاق جائز نہیں اور نہ ہی واقع ہوتی ہے۔
*مروجہ طریقہ پر دی گئی ایک مجلس کی تین طلاقیں حقیقتاً ایک ہی ہوتی ہے*

نبی رحمت ﷺ کی زندگی مبارکہ میں جب ایک شخص نے اپنی بیوی کو یکبارگی (اکٹھی) تین طلاقیں دیدیں تو آپ ﷺ سخت ناراض ہوئے او ر فرمایا
کیا اللہ کی کتاب کے ساتھ کھیل ، مذاق کیا جا رہا ہے؟ (جبکہ ابھی) میں تمہارے درمیان موجود ہوں۔
(سنن نسائی ۔کتاب الطلاق)
*غور کیجئے ! اگر اس طرح طلاق دینا جائز ہوتا تو رسول اللہ ﷺ اس قدر ناراض کیوں ہوئے ؟
* لوگ کہتے ہیں کہ تین طلاقیں ایک ساتھ دینا اور ان کا واقع ہو نا تو قرآن سے ثابت ہے یہ سراسر جھوٹ ہے کیونکہ جو بات قرآن سے ثابت ہو کیا رسول اللہ ﷺ اس بات پر ناراض ہو سکتے ہیں ؟ (جو قرآن سے ثابت ہے۔) نعو ذ باللہ من ذلک
تو معلو م ہو ا کہ مروجہ طریقہ طلاق غیر شرعی ہے اور اس صورت میں تین کے بجائے ایک ہی طلاق واقع ہو گی ، جسکی دلیل درج ذیل ہے۔
صحیح مسلم کتا ب الطلاق میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے عہد مبارک میں ، سیدنا ابوبکر صدیقؓ کے دور میں اور سیدنا عمر فاروقؓ کے عہد خلافت کے ابتدائی دو سالوں میں تین طلاقیں ایک ہی شمار ہوتی تھیں ۔صحیح مسلم ہی کی دوسری روایت کے الفاظ کے مطابق تین طلاقوں کو ایک ہی شمار کیا جاتاتھا ۔اب ظاہر ہے اس سے مراد ایک ہی مجلس یا ایک ہی کلمہ کے ساتھ دی جانے والی طلاقیں مراد ہیں لہٰذا یہ کہنا کہ اس میں ایک مجلس کا ذکر کہا ں ہے ؟سراسر جہالت ہے یا دجل و فریب ہے اور اگر اسی پر اصرار ہے کہ ایک مجلس کا لفظ دکھائیں تو ذرا سنن سعید ابن منصور دیکھ لیجیے جس میں ایک مجلس کی تین طلاقوں کو ایک قرار دینے کا ذکر ہے اور پھر مسند احمد 265/1پر حدیث سیدنا رکانہؓ دیکھ لیجئے کہ جس میں ایک مجلس کے الفاظ بالکل واضح ہیں۔
سیدنا رکانہ بن عبد یزیدؓ نے اپنی بیوی کو ایک ہی مجلس میں تین طلاقیں دیدیں پھر وہ بہت غمگین ہوئے ، (راوی کہتے ہیں) نبی مکرم ﷺ نے ان سے دریافت کیا کہ تم نے کس طریقہ پر طلاق دی ؟ انہوں نے کہا میں نے تین طلاقیں دی ہیں ۔آپ ﷺ نے پوچھا ایک ہی مجلس میں ؟ انہوں نے کہا ہاں تو آپ ﷺ نے فرمایا تو پھر وہ ایک ہی ہے، چاہو تو رجوع کر لو ، چنانچہ انہوں نے رجوع کر لیا ۔
(مسند احمد 265/1، ابو یعلی 2495-485/2)
حافظ ابن حجر ؒ نے فرمایا
یہ حدیث نص صریح ہے(ایک مجلس کی تین طلاقوں کے ایک ہو نے میں) ۔
(فتح الباری )
* سیدنا عبداللہ بن عباسؓ فرماتے ہیں: جب کہنے والا ایک ہی مرتبہ کہے کہ تجھے تین طلاق ہے، تو یہ ایک ہی طلاق ہو گی۔
(ابو داؤ د قبل حدیث 2198)
اس مسئلے کو سمجھنے کے لئے سورۃ البقرۃ آیت ۲۲۹ اور سورۃ الطلاق آیت ۱ بمع تفسیر مطالعہ کیجئے
 
  • Like
Reactions: S_ChiragH

lovelyalltime

I LOVE ALLAH
TM Star
Feb 4, 2012
1,656
1,533
913
*مسئلہ طلاق ثلاثہ پر اعتراضات و شبہات اور دعاوی کی حقیقت *
قارئین کرام ! یہاں تک تو قرآن و سنت سے معلوم ہونے والی جائز و ناجائز صورتیں لکھی گئی ہیں اب اس سلسلے میں ان اعتراضات ، شبہات اور دعوؤں کا جائزہ لیا جاتا ہے جو ’’ بعض النا س‘‘ کی طرف سے حاملین کتا ب وسنت کے موقف پر کئے جا تے ہیں۔
* دعویٰ کیا جاتا ہے کہ ’’ایک مجلس میں دی گئی تین طلاقوں کو تین ہی شمار کرنے کا فتویٰ سیدنا عمرؓ نے دیا تھا ۔‘‘
* کہا جاتا ہے کہ ’’فیصلہ عمر فاروقؓ کے بعد کسی صحابیؓ و تابعی ؒ نے سیدنا عمر سے اختلاف نہیں کیا اور نہ ہی ان کے فیصلے کے خلاف فتوی ٰ دیا ‘‘
* مسئلہ طلاق ثلاثہ میں احناف اور ائمہ اربعہ کا مذہب برحق ہے اور یہ اجماع کے مترادف ہے۔
* کہا جاتا ہے کہ’’ مسئلہ طلاق ثلاثہ میں اہلحدیث اجماع امت سے ہٹ کر شیعوں کے نقشے قدم پر ہیں ۔‘‘
* کہا جاتا ہے کہ ’’ حدیث مسلم جو آپ پیش کر تے ہیں وہ سنداً اور متناً مضطرب ہے۔‘‘
* اس حدیث کے روایت کرنے میں طاؤ س متفرد ہے، حالانکہ وہ متکلم فیہ ہے اور ابن عباسؓ سے منکر روایتیں نقل کر تا ہے۔
* امام احمد ؒ اور امام بخاری ؒ نے اس حدیث کو ذکر نہیں کیا ۔
* یہ حدیث منسو خ ہو گئی تھی ۔
* ابن عباسؓ کا فتوی ٰ اس کے خلاف ہے۔
انتہا ئی اختصار کے ساتھ ہم ان اعتراضا ت ، کہا وتوں اور دعو ؤ ں کا جائزہ علی الترتیب لیتے ہیں ۔
* صحیح مسلم کی حدیث بالکل واضح ہے کہ نبی مکرم ﷺ کے (مکمل)عہد میں ، صدیق اکبرؓ کے (مکمل) دور خلافت میں اور خود عمرؓ کے ابتدائی دو سالوں میں تین طلاقوں کو ایک ہی طلاق شمار کیا جاتا تھا ۔
سوچنے کی بات یہ ہے کہ وہ تعامل امت زیادہ صحیح ہے جو عہد رسالت ﷺ و عہد صدیقیؓ اور عہد فاروقیؓ کے ابتدائی سالوں تک چلتا رہا یا وہ تعامل جو بعد میں شروع ہوا؟
خود امیر عمرؓ کے پاس اگر ایسے شخص کو لا یا جاتا کہ جس نے اکٹھی تین طلاقیں اپنی بیوی کو دی ہوتیں تو آپؓ اسے کوڑے لگایا کر تے تھے۔
(شرح معانی الآثار 59/3)
خو د نبی مکرم ﷺ نے بیک وقت کی تین اکٹھی طلاقوں کو کتا ب اللہ کے ساتھ کھیل و مذاق قرار دیا ہے۔
(النسائی۔کتا ب الطلاق)
تو پھر کیا بلا وجہ اور بغیر کسی مقصد کے سیدنا عمرؓ نے تین طلاقوں کو تین قرار دینے کا فیصلہ دیا؟؟
اس کا جواب خود صحیح مسلم ہی کے الفاظ میں یہ ہے کہ لوگوں نے مسئلہ طلاق کو بوجہ عجلت غلط انداز سے برتنا شروع کر دیا تھا اور اسی روک تھا م کے سلسلے میں امیر عمرؓ نے یہ سیاسی اور تعزیری فیصلہ صادر فرمایا تاکہ لوگ متنبہ ہو جائیں اور کثرت سے بیک وقت تیں طلاقیں دینے کے رجحان کی حوصلہ شکنی ہو۔
*امیر عمرؓ کا فیصلہ شرعی نہیں بلکہ سیاسی اور تعزیری تھا*

دیکھئے، حاشیہ طحطاوی علی الدر المختار 105/2، مجمع الانھر شرح منتقی الابھر :328
(بحوالہ ایک مجلس میں تین طلاقیں اور اس کا شرعی حل۔دارالسلام)
یہی وجہ ہے کہ اس فیصلے پر امیر عمرؓ نے ندامت کا اظہا ر بھی کیا تھا ۔
(اغا ثۃاللفھان 351/1)
*
جہا ں تک تعلق ہے اس دعوے کا کہ امیر عمرؓ سے کسی نے اختلاف ہی نہیں کیا تو یہ دعویٰ بھی بلا دلیل ہے کیونکہ صحا بہ کرامؒ میں سے سیدنا عبدالرحمن بن عوفؓ ، سیدنا عبداللہ بن زبیرؓ سے ثابت ہے کہ انہوں نے اس مسئلے میں سیدنا عمرؓ سے اختلاف کیا تھا،جبکہ سیدناعبداللہ بن عباسؓ ، سیدنا عبداللہ بن مسعودؓ اور سیدنا علیؓ سے دونوں طرح کے فتوے منقول ہیں، جبکہ تابعین کرامؒ میں سے سیدنا عکرمہ ، سیدنا طاؤسؒ سے ثابت ہے کہ انہوں نے اس مسئلے میں امیر عمرؓ سے اختلاف کیا ہے۔
( اعلام المو قعین از ابن القیم، ایک مجلس کی تین طلاقیں اور ان کا شرعی حل از عبدالرحمن کیلانی)
ان دونوں حوالہ جات میں انتہائی تفصیل سے صحابہؓ، تابعین ؒ ، تبع تابعین ؒ و دیگر ائمہ و امحدثین کے حوالے سے ثابت کیا گیا ہے کہ ان سب نے امیر عمرؓ کے فیصلے سے اختلاف کیا تھا۔
*
جہا ں تک تعلق ہے ’’اجماع‘‘ کے دعوے کا تو یہ بھی کوئی دلیل نہیں رکھتا کیو نکہ عہد فاروقیؓ سے قبل عہد نبویﷺو صدیقیؓ میں کم از کم ایک ہزار صحابہؓ وغیرھم کاتین طلاق (فی مجلس واحد) کے ایک ہی ہونے پر اجماع رہا ہے لہٰذا بعد کے اجماع کی کوئی حیثیت نہیں رہی ۔
اور پھر صحیح بخاری کا ترجمۃالباب ’’من جوز طلاق الثلاث‘‘ بھی دلیل ہے کہ سلف صالحین میں سے بعض ایسے بھی گزرے ہیں جو تین طلاق کے (ایک ساتھ) وقوع کو جائز نہیں سمجھتے تھے جیسا کہ حافظ ابن حجر ؒ نے صراحت کی ہے۔
خود علمائے احناف کے سر خیلوں میں سے علامہ عینیؒ اور علامہ طحاویؒ نے خو د اس سلسلے میں سلف کے اختلاف کا ذکر کیا ہے۔
(دیکھئے عمدۃالقاری اور شرح معانی الآثار)
جس مسئلے میں صحابہؓ، تابعینؒ ، تبع تابعینؒ ، ائمہ و محدثین کا سخت اختلاف مو جو د ہو اسے اجماعی مسئلہ قرار دینا سراسر علم سے دوری اور ہٹ دھرمی ہے۔
تفصیل کے لئے دیکھئے ۔
(ایک مجلس میں تین طلاقیں اور اس کا شرعی حل۔دارالسلام)
*
رہی یہ بات کہ اس مسئلے میں اہلحدیث اجماع امت سے ہٹ کر شیعوں کے نقشے قدم پر ہیں تو اس سلسلے میں ہماری بات بالکل واضح ہے کہ اس مسئلے پر اجماع امت ہے ہی نہیں ، جیسا کہ ’’اختلاف‘‘ کی بحث سے واضح ہو چکا ہے اور میں نہ مانوں کا تو کوئی علاج ہی نہیں ہے۔
اور شیعیت کا الزام کس قدر جسارت کی بات ہے کیا وہ ہزاروں صحابہؓ، تابعینؒ ، تبع تابعینؒ جو امیر عمرؓ کے فیصلے سے اختلاف کر تے چلے آ ئے ہیں سارے شیعہ تھے؟؟ نعوذ باللہ من ذلک
*
اور یہ دعویٰ بھی بالکل بودا ہے کہ حدیث صحیح مسلم مضطرب ہے! کیونکہ یہ بات کسی بھی اہل علم نے ذکر نہیں کی۔
*
طاؤ س پر اعتراض او ر اس کے تفرد پر لب کشائی بھی کوئی حقیقت نہیں رکھتا، کیونکہ وہ فقیہ بھی ہے اور فاضل بھی ، ثقہ بھی حتیٰ کہ علامہ ذہبیؒ امام عمرو بن دینا ر سے نقل کر تے ہیں کہ میں نے طاؤ س کا مثل تو دیکھا ہی نہیں ، اور ثقہ راوی کا تفرد حدیث کے ضعف کو مستلزم نہیں ہو تا۔
*
اور یہ مطالبہ بھی بالکل جاہلانہ ہے کہ اس حدیث کو بخاری ؒ اور احمدؒ نے ذکر کیوں نہیں کیا ، اس لئے کہ امام بخاریؒ نے ایسا کوئی دعویٰ ہی نہیں کیا کہ میں ہر صحیح حدیث کو ’’الجامع الصحیح‘‘ میں ذکر کرونگا بلکہ طوالت کے خوف سے انہوں نے بہت سی احادیث کو چھوڑ دیا ہے۔ اور امام احمدبن حنبلؒ نے تو اسے مسند احمد میں 314/1پر ذکر کیا ہے اور کوئی اعتراض بھی نہیں کیا۔
*
اس حدیث کے منسوخ ہونے کا دعویٰ بھی بالکل غیر علمی ہے، کیونکہ اگر یہ منسوخ تھی تو عہد نبوی ﷺ، عہد صدیقیؓ اور خود عہد فاروقیؓ کے ابتدائی سالوں میں اس کا علم کسی کو کیوں نہ ہو سکا؟ اور پھر اس کا ناسخ کیا تھا؟ کیا قول عمرؓ ؟معاذاللہ کیا قول امتی بھی قول رسولﷺ کو منسوخ کر سکتا ہے؟؟
کیا ’’تواصی بالتقلید ‘‘ پر عمل پیر ا لوگ نہیں جانتے کہ اسی حدیث کے آخری حصے پر تو ان کے ’’ فرضی اجماع‘‘ کی بنیا د ہے اگر یہ حدیث منسوخ ہے، مضطرب ہے تو پھر خو د ان
کے ’’فرضی اجماع‘‘ کی دلیل کہا ں سے ملے گی ؟؟؟
( لو آپ اپنے دام میں صیاد آگیا! )

*
اور یہ بھی کم علمی کی علامت ہے کہ جی ابن عباسؓ (جو اس حدیث کے راوی ہیں) ان کا فتویٰ اس حدیث کے خلاف ہے ، کیونکہ یہ قاعدہ ہے کہ راوی کی روایت کا اعتبار کیا
جائے گا اس کی رائے کا نہیں ۔(فتح الباری 97/9) جبکہ اس کا فتویٰ مرفوع روایت کے خلاف ہو۔
اور ابوداؤد میں تو صراحت موجود ہے کہ ابن عباسؓ نے فرمایا کہ
’’جب کوئی یہ کہے (اپنی بیوی کو) کہ تجھے تین طلاق تو یہ ایک طلاق ہی شمار ہو گی۔‘‘
دیکھ لیجئے کہ ابن عباسؓ نے کیا فتویٰ دیا ہے۔
*رجوع اور تجدید نکاح وغیرہ*

یاد رکھنا چاہیے کہ’’ عدم رجوع‘‘ کی صرف تین صورتیں ہیں!
قرآن مجید میں طلاق کے متعلق جو آیات بیان کی گئی ہیں ان میں بالا طلاق خاوند کو رجوع کا حق دیا گیا ہے۔
ۚ وَبُعُولَتُهُنَّ أَحَقُّ بِرَدِّهِنَّ فِي ذَلِكَ إِنْ أَرَادُوا إِصْلَاحًا ۔۔۔
(سورۃ البقرۃ آیت:۲۲۸)
’’ان کے خاوند انہیں لوٹالینے کے پورے حقدار ہیں اس مدت میں اگر وہ اصلاح کا اراداہ رکھتے ہوں۔‘‘
صرف تین صورتوں میں رجوع کی اجازت نہیں ہے۔
۱
۔وہ عورت جسے تیسری مرتبہ (شرعی طریقہ پر) طلاق دی جا چکی ہو۔
فَإِنْ طَلَّقَهَا فَلَا تَحِلُّ لَهُ مِنْ بَعْدُ حَتَّى تَنْكِحَ زَوْجًا غَيْرَهُ ۔۔۔
(البقرۃ آیت :۲۳۰)
’’پس اگر وہ(خاوند) اسے (تیسری) طلاق بھی دیدے تو پھر اس کے لئے جائز نہیں جب تک کہ وہ عورت اس کے علاوہ کسی اور شخص سے نکاح نہ کرلے۔‘‘
۲
۔وہ عورت جس نے از خود طلاق (بصورت خلع) حاصل کی ہو۔
ترجمہ : پس اگر تمہیں ڈر ہو کہ یہ دونوں اللہ کی حدیں قائم نہ رکھ سکیں گے تو عورت جو کچھ بدلہ دے کر خود کو چھڑالے تو اس میں دونوں پر کچھ گناہ نہیں۔
(البقرۃ آیت:۲۲۹)
اس طرح عورت گو یا فدیہ دیکر خاوند کے حق رجوع کو ختم کر دیتی ہے۔
۳
۔وہ عورت جسے قبل از صحبت طلاق دے دی جائے۔
ترجمہ: اے ایمان والوں! جب تم مومنات سے نکاح کرو ، پھر انہیں مس کئے بغیر طلاق دیدو تو تمہارے لئے ان پر کوئی عدت نہیں جسے تم شمار کرو انہیں کچھ دیکر اچھے انداز میں رخصت کر دو۔
(سورہ احزاب :49)
ان تین صورتوں کے علاوہ اور جو کوئی بھی صورت ہو فقط طلاق رجعی شمار ہو گی اب ایک ہی بار دی ہوئی تین (اکٹھی) طلاقوں کو تین شمار کر لینا اپنی طرف سے چوتھا استثناء نہیں تو اور کیا ہے؟
(تین طلاقیں از خواجہ قاسم)
 

lovelyalltime

I LOVE ALLAH
TM Star
Feb 4, 2012
1,656
1,533
913
*شوہر کے لئے رجوع کا اختیا ر*
الطَّلَاقُ مَرَّتَانِ ۖ فَإِمْسَاكٌ بِمَعْرُوفٍ أَوْ تَسْرِيحٌ بِإِحْسَانٍ ۔۔۔
(البقرۃ آیت:۲۲۹)
’’طلاق دینا دو ہی با ر ہے ، پھر یا تو معروف(بھلائی) کے ساتھ روک لینا ہے یا پھر احسان(عمدگی) کے ساتھ چھوڑ دینا ہے۔‘‘
اس آیت میں وضاحت ہے کہ دو طلاقوں تک کسی شخص کو اپنی بیوی سے رجوع کا حق رہتا ہے بشرطیکہ طلاق کی عدت ختم نہ ہو گئی ہو ۔ اسی چیز کو’’فَإِمْسَاكٌ‘‘ سے
تعبیر کیا گیا ہے۔
اور عدت گزرنے کے بعد بھی (ایک یا دو طلاق کی صورت میں) تجدید نکاح سے سابقہ شوہر اپنا گھر آباد کر سکتا ہے۔
(دیکھئے سورہ بقرہ آیت ۲۳۲ بمع تفسیر و صحیح بخاری کتاب النکاح باب من قال لا نکاح الا بولی)
البتہ تیسری شرعی طریقہ پر دی گئی طلاق کے بعد شوہر کیلئے رجوع کا حق باقی نہیں رہتا جیسا کہ سورہ البقرہ آیت ۲۳۰ میں بیا ن ہوا ہے۔
ایسی صورت میں تجدید نکاح بھی نہیں ہو سکتا ، ہاں اگر یہ عورت عدت گزار کر کسی اور جگہ شرعی نکاح کرے اور پھر اتفاق سے وہ خاوند فوت ہو جائے یا طلاق دیدے تو عورت اسکی عدت گزار کر زوج اول سے نکاح کر سکتی ہے۔مگر ایسا معاملہ شاذو نادر ہی ہو تا ہے۔
طلاق کے بعد رجوع کا ذکرسورہ بقرہ آیت ۲۳۱، ۲۲۸ سورہ طلاق آیت ۲ میں بھی ہو اہے۔
یاد رہے کہ تجدید نکاح کے بعد شوہر کو صرف اسی قدر طلاق کا حق باقی رہتا ہے جتنی کہ شرعاً باقی ہیں ۔اگر ایک دی تھی تو دو کا حق اور اگر دو دی تھیں تو فقط ایک کا حق باقی رہے گا، ایسا نہیں ہے کہ تجدید نکاح سے شوہر کو از سر نو پھر سے تین طلاقوں کا حق حاصل ہو جائیگا۔
(دیکھئے مؤطا امام مالک مع الاستذکار بحوالہ موسوعۃ شروح المؤ طا جلد ۱۵ اور تنویر الآفاق فی مسئلۃ الطلاق صفحہ 146-147)
*مروجہ حلالہ ملعونہ*

موجو دہ معاشرے میں کوئی شخص جب ایک ہی مجلس میں تین اکٹھی طلاقیں دیدیتا ہے تو اس پر پھر وہ نادم بھی ہو تا ہے۔اب ہو نا تو یہ چاہئے کہ اسے شرعی حکم سے آگاہ کر دیا جائے مگر افسوس کے شہوت پرست مولوی اسے ’’بدکاری اور حرام کاری‘‘ کا مشورہ دیتے ہیں اور ڈھٹائی تو یہ ہے کہ اپنے اس عمل اور فتوے کو قرآن و سنت کی ترجمانی قرار دیتے ہیں۔نعوذ باللہ من ذلک
مشورہ یہ دیتے ہیں چونکہ تمہاری بیوی مطلقہ بائنہ ہو چکی ہے اب اس سے تمہارے نکاح کی ایک ہی صورت ہے کہ تم اس کی شادی عارضی طور پر (ایک دن یا اس سے زیادہ) کسی اور سے کر دو پھر وہ طلاق دیدے گا تو تمہارا اس سے نکاح جائز ہو جائے گا ۔اسی کا نام حلالہ رکھا جاتا ہے حالانکہ اس ’’فرمائشی نکاح ‘‘ کو حرامہ کہنا زیادہ موزوں ہے۔اور پھر
ظلم در ظلم یہ کہ اس بد عمل کے لئے کرائے کے سانڈ ہمہ وقت مدارس تقلیدیہ میں مو جود رہتے ہیں۔اندھے ، لولے ، لنگڑے اور انتہائی شریف زادے مولوی؟؟؟
نبی رحمت ﷺ نے فرمایا
کرائے کا سانڈ حلالہ کر نے والاہے۔اللہ تعالیٰ نے حلالہ کرنے والے اور جس کیلئے حلالہ کیا جائے دونوں پر لعنت بھیجی ہے۔
(سنن ابن ماجہ 1936)
آپ ﷺ نے خود بھی ایسے لوگوں پر لعنت بھیجی ہے۔
( جامع ترمذی 123/1)
صحابہ کرامؓ ااس مروجہ حلالے کو عہد نبویﷺ میں زنا شمار کرتے تھے۔
(مستدرک حاکم 199/2)
جناب عمرؓ ایسے دونوں فریق کو رجم کر دینے کے قائل تھے۔
(مصنف ابن ابی شیبہ)
مسئلہ طلاق میں فیصلہ عمرؓ (جو سیاسی و تعزیری تھا) کی بات کرنے والے اس شرعی فیصلے کو کیوں نہیں مانتے ؟؟؟
علامہ ابن قیم ؒ نے تفصیلی بحث کر کے ثابت کیا ہے کہ مروجہ حلالہ متعہ سے بھی بد تر عمل ہے۔
(دیکھئے اعلام الموقعین)
*مروجہ طلاق اور مروجہ حلالے پر علمائے احناف کے بیانات*

*
مولانا شمس پیر زادہ ۔
(بمبئی)
اپنے مقالے میں فرماتے ہیں
تین یکجائی طلاق کے ایقاع پر نہ قرآن کا حکم صریح موجود ہے نہ کوئی حدیث ہی ایسی ہے جس میں اس کا صریح حکم بیان کیا گیا ہو اور نہ اس پر اجماع ہی ثابت ہے۔۔۔
*
مولانا سید احمد عروج قادری ۔
(ایڈیٹر ماہنامہ ’’زندگی‘‘ ۔رامپور ۔بھارت)
سوالوں کے جوابات دیتے ہوئے فرماتے ہیں
’’اگر طلاق دینے والے نے اس خیال کے تحت تین کی صراحت کے ساتھ طلاق دی کہ اس کے بغیر طلاق واقع ہی نہیں ہوتی تو تین طلاقوں کو ایک ہی شمار کیا جانا چاہئے۔‘‘ نیز فرماتے ہیں کہ ’’ایک مجلس کی تین طلاقوں کے مغلظہ ہو نے پر اجماع کا دعویٰ محل نظر ہے۔‘‘
*
مولانا محفو ظ الرحمن قاسمی ۔
(فاضل دیو بند)
فرماتے ہیں
بیک وقت تین طلاقیں دینا معصیت ہے تو کیوں نہ اس معصیت کو روکنے کا انتظام کیا جائے اور اس کا دروازہ ہی بند کر دیا جائے اور شریعت کی مصلحتوں کو طلاق کے سلسلے میں باقی رکھا جائے، علامہ فخرالدین رازی نے اسی رائے کو ترجیح دی ہے۔
حلالہ مروجہ کے حوالے سے فرماتے ہیں
موطاامام مالک میں ہے ’’دونوں کے درمیان ہر حال میں تفریق کر دی جائیگی ، اگر ان کا ارادہ تحلیل کا ہے۔‘‘
ہمارے ائمہ میں سے صرف امام ابو حنیفہؒ کے نزدیک تحلیل سے بیوی زوج اول کے لئے حلال ہو تی ہے ورنہ امام محمد و ابو یو سف کے نزدیک دیگر ائمہ کی طرح علی وجہ التحلیل کیا ہو ا نکاح غلط ہے اور اس سے عورت زوج اول کیلئے حلال نہیں ہو تی ۔
مزید فرماتے ہیں
بالکل متعۃ النساء کی طرح مشروط نکاح کیا جاتاہے۔
*
مولانا پیر کرم شاہ ازہری آف بھیرا۔
(بریلوی)
اپنے مقالے ’’دعوت فکر ونظر‘‘ میں فرماتے ہیں
تمام علمائے احناف (و علماء مالکیہ حنبلیہ) اس بات پر متفق ہیں کہ طلاق بدعی حرام ہے۔
تینوں طلاقیں ایک طہر میں دینے کا قرآ ن میں کوئی ثبوت نہیں ۔
اگر اجما ع ثابت ہو جائے تو بلا شبہ وہ دلیل قطعی ہے لیکن اجماع کا ثبوت محل نظر ہے۔
مزید فرماتے ہیں
جس مسئلہ میں ہر زمانہ کے ائمہ اسلام اختلاف کر رہے ہوں اس کہنا کہ یہ مجمع علیہ ہے بڑے دل گردے کا کام ہے۔
مروجہ حلاے پر تبصرہ فرماتے ہوئے لکھتے ہیں
’’پھر وہ علماء صاحبان کی خدمت میں حاضر ہو تے ہیں جو باستثناء چند حضرات بڑی معصومیت سے انہیں حلالہ کا دروازہ دکھا تے ہیں۔اس وقت انہیں اپنے غیور رسولﷺ کی وہ حدیث فراموش ہو جاتی ہے ’’حلالہ کرنے والے پر بھی اللہ کی لعنت اور جس (بے غیرت) کیلئے کیا جائے اس پر بھی اللہ کی لعنت ۔‘‘
ان علماء ذی شان کے بتائے ہوئے حل کو اگر کو بدنصیب قبول کر لیتا ہوگا تواسلام اپنے کرم فرماؤں کی ستم ظریفی پر چیخ اٹھتا ہو گا۔۔۔
ایک سوال
(کیا امام ابو حنیفہؒ کے مقلد ہو تے ہوئے اصول شریعت ہمیں اجازت دیتے ہیں کہ ناگزیر مجبوریوں میں ہم کسی دوسرے امام کے قول پر عمل کریں؟)
اس کے جواب میں پیر صاحب فرماتے ہیں
اصول فقہ کی کتابوں کے مطالعہ کے بعد علی وجہ البصیرت کہا جا سکتا ہے کہ ایسا ہو سکتا ہے۔‘‘
(تمام حوالوں کیلئے دیکھئے مجموعہ مقالات علمیہ دربارہ۔ایک مجلس کی تین طلاقیں ، طبع نعمان کتب خانہ ۔لاہور، اور ایک مجلس میں تین طلاقیں او راس کا شرعی حل از دارالسلام)
مذکورہ حوالہ جات میں مزید کئی اور علمائے احنا ف کے بیانا ت کو بھی دیکھا جا سکتا ہے۔
وآ خر دعواناان الحمد للہ رب العالمین۔وصلی اللہ علی نبینامحمد و علی آلہ و صحبہ و اھل طاعتہ اجمعین۔
*** حوالہ جات ***

۔قرآن مجید بمعہ تفسیر ابن کثیر
۔صحیح بخاری و صحیح مسلم
۔جامع ترمذی و ابن ماجہ
۔سنن ابی داؤ د و النسائی
۔مستدرک حاکم
۔مصنف ابن ابی شیبہ
۔موطا امام مالک مع الاستذکار
۔تنویر الآفاق فی مسئلۃ الطلاق۔رئیس ندوی
۔ایک مجلس میں تین طلاقیں اور اس کا شرعی حل ۔دارالسلام
۔ایک مجلس کی تین طلاقیں اور ان کا شرعی حل۔عبدالرحمن کیلانیؒ
۔مجموعہ مقالات علمیہ دربارہ ، ایک مجلس کی تین طلاقیں ۔نعمانی کتب خانہ
۔اعلام الموقعین
۔تین طلاقیں ۔خواجہ قاسم
۔طلاق قرآن و حدیث کی روشنی میں۔حکیم اسرائیل ندوی
۔حکم طلاق الثلاث۔ڈاکٹر ابو جابر
۔مسئلہ طلاق ثلاث اور شبہات کا ازالہ
۔حلالہ کی چھری۔ابو شرحبیل
 

i love sahabah

TM Star
Sep 17, 2008
1,108
1,572
1,313
تمام مسلمانوں کو السلامُ علیکم
@S_ChiragH @Dawn @Don @Atif-adi @hoorain @Star24
سب سے پہلے تو یہ کہنا چاہتا ہوں کہ ابھی تک لولی کو پتہ نہیں کہ ہماری بات کس موضوع پہ چل رہی ہے۔
کیونکہ لولی نے نام نہاد اہلحدیثوں کے فورم سے مواد اٹھا کے صرف کاپی پیسٹ کرنا ہے اور کچھ نہیں اس لئے وہ نہ تو موضوع کو دیکھتا ہے اور نہ ہی کسی دوسرے ممبر کی پوسٹ کو دیکھتا ہے بس دوسرے فورم پہ جاتا ہے ایک کالم اٹھاتا ہے اور یہاں پیسٹ کر دیتا ہے۔

لولی نے میری پوسٹ پہ اعتراضات کئے تھے اور میں نے لولی کے تمام باتوں کا تفصیل سے مکمل جواب دیا تھا۔ اب چاہیے تو یہ تھا کہ لولی انہی حوالوں پہ بات آگے بڑھاتا اور میرے سوالوں کے جواب دیتا اور جو حوالے صحیح بخاری سے میں نے دئیے ہیں ان کا جواب دیتا لیکن اس نے کسی مولوی کی کتاب اٹھا کے یہاں چھاپ دی۔
لولی کا یہ کتاب چھاپنا ہی اس بات کا ثبوت ہے کہ اس کے پاس میری پوسٹ کا کوئی جواب نہیں ہے اور بس ٹائم پاس کر رہا ہے۔

تمام ممبران اور موڈریٹر دیکھ سکتے ہیں کہ لولی خود اہلحدیثوں، بریلویوں اور دیوبندیوں کے حوالے دے رہا ہے اور بعد میں الزام اس نے مجھ پہ لگانا ہے جیسا کہ قرآت خلف امام کے موضوع میں اس نے کیا کہ خود اہلحدیثوں کے حوالے دئے اور الزام مجھ پہ لگا دیا۔

لولی کا دعوی ہے کہ وہ صرف قرآن اور حدیث کو مانتا ہے اور خود اپنی دلیل میں اہلحدیثوں ، بریلویوں اور دیوبندیوں کے حوالے دیتا ہے۔

*** حوالہ جات ***


۔تنویر الآفاق فی مسئلۃ الطلاق۔رئیس ندوی
۔ایک مجلس میں تین طلاقیں اور اس کا شرعی حل ۔دارالسلام
۔ایک مجلس کی تین طلاقیں اور ان کا شرعی حل۔عبدالرحمن کیلانیؒ
۔مجموعہ مقالات علمیہ دربارہ ، ایک مجلس کی تین طلاقیں ۔نعمانی کتب خانہ
۔اعلام الموقعین
۔تین طلاقیں ۔خواجہ قاسم
۔طلاق قرآن و حدیث کی روشنی میں۔حکیم اسرائیل ندوی
۔حکم طلاق الثلاث۔ڈاکٹر ابو جابر
۔مسئلہ طلاق ثلاث اور شبہات کا ازالہ
۔حلالہ کی چھری۔ابو شرحبیل
لولی صاحب یہ رئیس ندوی، اقبال کیلانی، خواجہ قاسم، ڈاکٹر ابو جابر، ابو شرجیل، پیر کرم شاہ، خالد سیف اللہ رحمانی وغیرہ کب سے تمہارے لئے حجت ہو گئے؟
خود مولویوں کے حوالے دیتے ہو اور پھر کہتے ہو کہ قران اور حدیث کو مانتے ہو۔

اگر تم میں اتنی صلاحیت ہوتی تو ان مولویوں کے حوالے نہیں دیتے لیکن مجھے معلوم ہے کہ کسی بھی مسئلے میں تمہارا اپنی نہ تو کوئی سوچ ہے اور نہ کوئی موقف ہے بلکہ تمہاری پوری تحقیق ان مولویوں اور نام نہاد اہلحدیثوں کے فورم کی محتاج ہے۔
[DOUBLEPOST=1365102451][/DOUBLEPOST]

حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے فیصلہ کے بارے میں ایک بات کرنا چاہتا ہوں کہ جیسا کہ لولی صاحب نے بھی اعتراض کیا کہ حضرت عمر رضی اللہ کا فیصلہ سیاسی تھا تو خود بخود یہ سوال ذہن میں آتا ہے کہ کیا حضرت عمر رضی اللہ عنہ کوئی فیصلہ قران اور حدیث اور نبی کریم ﷺ کے فرمان کے خلاف دے سکتے ہیں (چاہے وہ فیصلہ سیاسی ہو یا مذہبی)؟
خود سوچیں کہ ایک صحابی اور وہ بھی کوئی عام نہیں بلکہ خلیفہ راشد امیر المومنین حضرت عمر رضی اللہ عنہ، جنہوں نے نبی کریم ﷺ کی بات نہ ماننے پہ ایک آدمی کی گردن تک اڑا دی تھی کیا وہ کسی سیاسی مقصد کے لئے قرآن اور نبی کریم ﷺ کے فرمان کو ٹھکرا دیں گے؟

یہ ہو ہی نہیں سکتا کہ کسی بھی سیاسی مقصد کے لئے حضرت عمر رضی اللہ نبی کریم ﷺ کے فرمان کے خلاف کوئی حکم دیں۔

اور پھر اگر حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا یہ تین طلاق کا فیصلہ غلط ہوتا تو کوئی ایک صحابی تو ہوتا جو امیر المومنین حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو روکتا اور ان کو اصل مسئلہ بتاتا؟
حضرت عثمان، حضرت علی، حضرت عبداللہ ابن مسعود، حضرت زید بن ثابت، حضرت معاذ بن جبل، حضرت اُبی بن کعب اور خود مسلم شریف کی حدیث کے راوی حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہم، اتنے بڑے اکابر صحابہ کرام جو مفسر بھی تھے، محدث بھی تھے اور فقیہ بھی تھے کسی ایک نے تو حضرت عمر رضی اللہ کے اس فیصلہ کی مخالفت کی ہوتی اور اس فیصلہ پہ اعتراض کیا ہوتا؟
یہ تو ہو نہیں سکتا کہ ان صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی زندگی میں کوئی فیصلہ قرآن اور نبی کریم ﷺ کے فرمان کے خلاف ہو اور یہ خاموش رہیں۔

حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی شہادت کے بعد حضرت عثمان رضی اللہ عنہ اور پھر ان کے بعد حضرت علی رضی اللہ عنہ کا دور خلافت آیا۔ کسی نے تو اپنے دورِ خلافت میں اس فیصلہ کو ختم کیا ہوتا اور کہا ہوتا کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا فیصلہ سیاسی تھا اور صرف اس وقت کے لئے تھا اس لئے اب نافذ نہیں ہے؟

اس کے بعد حضرت حسن بن علی رضی اللہ عنہ، حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کسی ایک نے تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے اس سیاسی فیصلہ کو ختم کر کے اصل مذہبی فیصلہ نافذ کیا ہوتا؟
@hoorain @Abidi @Miss_Khan @parri @Nelly @Don @Farhan-Shamsi @Aunty_Nasreen @Tooba Khan @RedRose64
@Pari @Prince_Farry @Fa!th @ChoCo
@Mahen
@Atif-adi
@nasirnoman @S_ChiragH @Star24 @sherry2112 @Iceage-TM @Dawn[DOUBLEPOST=1365103756][/DOUBLEPOST]
اس مسئلہ پہ امت کا اجماع ہے کہ تین طلاق ایک بھلے ایک مجلس کی ہوں وہ تین ہی ہوتی ہیں تو اس کے لئے سعودیہ کی فتاوی کمیٹی کا فتوی آپ کے سامنے پیش کرتا ہوں جس سے ثابت ہوتا ہے کہ تین طلاق تین ہی ہوتی ہیں۔
اس فتوی میں لولی کی پیش کئے گئے حوالوں کا جواب بھی شامل ہے اور ان کا بھی یہ کہنا ہے کہ چاروں ائمہ اربعہ اور جمھور کا یہی موقف ہے کہ ایک مجلس کی تین طلاق تین ہوتی ہے۔
talaq 1.jpg
talaq 2.jpg
talaq 3.jpg
talaq 4.jpg
talaq 5.jpg
talaq 6.jpg
talaq 7.jpg
talaq hawala 1.jpg
talaq hawala 2.jpg
talaq hawala 3.jpg
talaq hawala 4.jpg

سعودیہ کے تمام اکابر علماء کا متفقہ فیصلہ سعودیہ کی وزارت اوقاف کی آفیشل ویب سائٹ کے حوالوں کے ساتھ آپ کے سامنے ہے۔

مجھے معلوم ہے کہ لولی نے صرف کاپی پیسٹ کرنا ہے اور میری کسی پوسٹ کا کوئی جواب نہیں دینا بلکہ صرف مولویوں کے حوالے دینے ہیں اس لئے اس ٹاپک پہ اور بحث کرنا فضول ہے۔اس لئے میں اب اور اس ٹاپک میں کوئی بات نہیں کروں گا۔
 

Ghazal_Ka_Chiragh

>cRaZy GuY<
VIP
Jun 11, 2011
21,050
15,085
1,313
31
Karachi,PK
Ab agar is thread mein Sihah sittah ke ahadeeth ke ilaawa Quraan ke ayaah ke ilaawa
kuch dikha to thread cloze kar di jaayegi pehle se bohot reports aa chuke hain is thread ke hawaale .
 
Status
Not open for further replies.
Top